Best story for a history ~ Bangladesh in urdu #5

معظم علی بنگال کا ایک ہیرو5

یہ ایک بہت ہی پر سکون رات تھی ۔آسمان پرچاند آج پہلے سے زیادہ روشن نظر آ 
رہا تھا ۔پروین بستر پر لیٹے آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی ۔آج دوپہر کو ہی بارش ہوئی تھی ۔جس کی وجہ سے آسمان کدرے صاف نظر آ رہا تھا ۔ستارے پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے ۔پروین کو لگ رہا تھا کے تارے ایک دوسرے کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔لیکن اس کی سوچ کہی اور تھی ۔کیا مجھے یہ گھر چھوڑ کر جانا پڑے گا ۔اگر جانا ہے تو کیا وہ شعیب ہے ۔ شعیب کا نام ذہن میں آتے ہی اسے معظم کا خیال بھی آیا ۔شعیب کیوں معظم کیوں نہیں ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔ لیکن پھر ایک بار دل دھڑکا لیکن معظم کیوں ؟  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ 
شعیب کو تو نشانے بازی بھی نہیں آتی اور نہ تیر اندازی پتہ نہیں تلوار سے لڑنا بھی جانتا ہے کہ نہیں ۔
لیکن اس کے مقابل معظم علی تو سب کچھ بہت بہتر طریقے سے جانتا ہے ۔
سوچ کا رخ ایک بار پھر بدلہ اب کی بار پروین سوچنے لگی 

میں معظم کی بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں ۔مجھے شعیب اور معظم کا موازنہ نہیں کرنا چاہئے ۔اور اب تو ویسے بھی معظم فوج میں نہیں جانا چاہتا ۔وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ۔پھر خود ہی کہتی مجھے کیا جو مرضی کرتا رہے ۔لیکن دل ایک بار پھر دھڑکا اب کی بار دل نے کہا کہ جو بھی ہو میرے ساتھ زندگی گزارنے والا معظم سے ہر طور بہتر ہونا چاہئے ۔
رات کا پچھلا پہر چل رہا تھا لیکن پروین کو نیند نہیں آ رہی تھی مستقبل کے سپنے کبھی اس کو خوش تو کبھی غمگین کر دیتے 
اف اللّه میں کتنی گنہگار ہوں غیر مرد کے بارے میں سوچتی ہوں ۔یا اللّه مجھے معاف کرنا ۔پروین چارپائی سے اٹھی اور وضو کرنے لگی ۔تہجد کی نماز پڑنے لگی ۔سلام پھیرنے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھیے تھے کے باہر شور سنایی دیا ۔باہر کافی سارے لوگ جمع تھے 
پروین کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔سلمہ بھی پروین کی امی۔ ابھی نماز سے فارغ ہوئی تھی ۔جلدی سے اس نے نوکر کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ آیا ۔تو پروین کے پاس چلی آئی 
خدا خیر کرے یہ کیسا شور ہے ۔تمہارے بابا جان بھی گھر میں نہیں ہیں شہباز بھی نہیں ہے ۔نوکر پتہ نہیں کدھر مر گئے سارے ۔سلمہ نے ایک بار پھر آواز دی بشیر ۔لیاقت چچا دینو ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔ ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا جی بی بی جی ۔یہ دینو تھا گھر کا سب سے پرانا نوکر عمر کوئی 50،60کے قریب تھی ۔باہر کیا ہو رہا ہے ۔اتنا شور کیوں ہے ۔پہریدار تو اپنی اپنی جگہ پر ماجود ہیں نہ ۔سلمہ نے ایک ہی بار میں سارے سوال پوچھ لیے ۔دینو بولا بیبی جی ڈاکووں نے بیگ صاحب کا گھر لوٹنے کی کوشش کی تھی لیکن پتہ نہیں کیسے معظم کو پتہ چل گیا ۔اور اس نے ان پر حملہ کر دیا اپنے چھوٹے صاحب بھی ان کے ساتھ ہی تھے ۔سلمہ بولی یا اللّه خیر میرا بیٹا شہباز ۔پھر کیا ہوا اب کی بار پروین بولی آگے سے ڈاکووں نے بھی حملہ کر دیا ۔کافی دیر تیر اندازی اور فائرنگ ہوتی رہی لیکن شاید دور ہونے کی وجہ سے یہاں آواز نہیں آ رہی تھی ۔میں نے چوہدری صاحب کو آ کر بتایا تو وہ دو پہریداروں کو اور خود بھی گھوڑا لے کر ادھر چلے گئے اور مجھے یہاں گھر بیج دیا ۔اللّه خیر سلمہ پھر بولی اور آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگی ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ حسن بیگ صاحب کا گھر چوہدری ابرار کے گھر سے کافی دور تھا ۔مرشدا باد میں یہ بھی ایک امیر گھرانہ تھا نوکر چکر اور اٹھ دس پہریدار بھی بیگ صاحب نے رکھے ہوئے تھے ۔گھر بھی کافی بڑا تھا ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔ معظم اور شہباز کے علاوہ بیگ صاحب کے نوکر اور پہریدار بھی گھر کے اندرونی طرف سے وقفے وقفے سے فائرنگ اور تیر اندازی کر رہے تھے ۔لیکن دوسری جانب ڈاکو ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے ۔وہ بھی لگاتار فائرنگ کر رہے تھے ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ اچانک   ۔  ۔ 
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ڈاکووں کی طرف سے فائرنگ رک گئی ۔معظم اور شہباز نے بھی فائرنگ روکنے کا اشارہ کیا جلد ہی سب تک فائرنگ رکنے کی بات پہنچ گئی ۔اور بیگ صاحب کے گھر کی طرف سے بھی فائرنگ رک گئی ۔ابھی تک دونوں جانب سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔کوئی 15،10 منٹ بعد گھوڑے پر بیٹھا کوئی آدمی جھنڈا لہراتا ہوا نمودار ہوا اس نے منہ پر چادر ڈال رکھی تھی
دروازے کے قریب آ کر وہ بلند آواز میں بولا کوئی ہیں ۔؟
میں گھر کے فرد سے بات کرنا چاہتا ہوں ؟
حسن بیگ نے سوالیہ نظروں سے معظم کی طرف دیکھا ۔معظم نے ہاتھ سے بیگ صاحب کو روکنے کا کہا اور خود اٹھ کر دروازے کی جانب چل پڑا ۔یہ دیکھ کر شہباز بھی معظم کے پیچھے چل پڑا ۔معظم نے ہاتھ میں سفید جھنڈا اٹھایا اور گھوڑے کو ایڑھی لگا دی ۔دروازے پر پہنچ کر پہریدار کو دروازہ کھولنے کا کہا ۔دروازہ کھلتے ہی ایک سوار اندر داخل ہوا ۔اس نے اب بھی منہ پر چادر کی ہوئی تھی ۔اس کا گھوڑا پسینے سے شرا بور تھا ۔ڈاکو معظم کو مخاطب کر کے بولا ۔میں نے گھر کے فرد سے بات کرنی ہے جاؤ بیگ صاحب کو بےجو ۔ بیگ صاحب نے مجھے بیجا ہے جو کہنا ہے کہو ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔ دیکھ اے نوجوان کیوں بھری جوانی میں مرنا چاہتا ہے ۔شہباز جو اب تک خاموش تھا بولا ۔دیکھتے ہیں کس کی موت آئی ہے آ جا میدان میں ۔اور ساتھ ہی اپنی تلوار ہوا میں بلند کر دی ۔
  ۔  ۔ 
  ۔  ۔  ۔ڈاکو بولا اگر تم لوگ اپنی خیر چاہتے ہو تو  بیگ صاحب کو جا کر بول دو کے ہم خالی ہاتھ جانے والے نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ تم زیادہ دیر ہمارے سامنے ٹیک پاؤ گے تمہاری تعداد ہمارے مقابلے کچھ بھی نہیں ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ایک مرد تعداد کو دیکھ کر نہیں اپنی عزت اور وقار کو دیکھ کر میدان میں اترتا ہے ۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم چپ چاپ یہاں سے نکل جاؤ معظم علی بولا 
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ 
پھر بھی میں چاہو گا کے بیگ صاحب کو ایک بار جا کر بتا دو کے ہم زیادہ نہیں صرف 200 سو اشرفی 500سو سونے کے سکے اور 5000 ہزار چاندی ہمیں دے دیں تو ہم کسی کو نقصان پہچائے بغیر چلے جاۓ گے ۔معظم نے شہباز کی طرف دیکھا ۔شہباز نے گھوڑے کو واپس بیگ صاحب کی جانب موڑ دیا ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ 
بیگ صاحب پیسے دینے کو تیار تو تھے لیکن اس وقت گھر میں اتنی رقم نہیں تھی ۔بیگ صاحب نے زیادہ تر مال و دولت کلکتہ شفٹ کر دی تھی اور خود بھی جلد ہی کلکتہ شفٹ ہونے کا ارادہ رکھتے تھے ان کے بیٹے پہلے ہی وہاں چلے گئے تھے ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ شہباز واپس آیا اور معظم کے کان میں ساری صورتحال بتا دی ۔
ڈاکو کا صبر ختم ہو چوکا تھا ۔غصے سے بولا بات سن اے۔نوجوان میرا نام ہے باغ سنگ ۔اب میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ۔آپ لوگوں کے پاس 15منٹ کا ٹائم ہے اگر کوئی بھی بندہ مال لے کر باہر نہیں آیا تو میں پورے گاؤں کو آگ لگا دوں گا اور ساتھ ہی گھوڑے کو موڑ کر باہر نکل گیا ۔معظم اور شہباز کو اچھی طرح پتہ تھا کے اب ان کو لڑنا پڑے گا ۔
 ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ اس کے ساتھ ہی صبح کی اذانسنائی دینے لگی ۔معظم اور شہباز نے صبح کی نماز پڑی اور اللّه سے کامیابی کی دعا مانگی ۔اب ایک چکر پورے محل نما گھر کا لگایا اور ہر پہریدار کو سختی سے کہا اپنی جگہ پر ڈٹے رھو اور فضول فائرنگ یا تیر نہ چلانا ۔پورے محل میں کوئی 20 کے قریب محافظ بنتے تھے ان میں سے بھی کچھ گھر کے نوکر تھے جن کو ٹھیک طرح سے نشانے بازی بھی نہیں آتی تھی معظم اور شہباز چھت پر مورچہ زن تھے ۔معظم بولا اگر ہم انھیں کوئی  آدھا پونا گھنٹہ روکنے میں کامیاب ہو گئے تو گاؤں والوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے ۔اور دن کی روشنی میں ان کا آگے بڑھنا روکا جا سکتا ہے ۔شہباز بولا میں تو ان کی تعداد کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔معظم بولا جب یہ ہمارے ساتھ والے گھر سے لوٹ مار کر کے نکلے تھے تو میرا اندازہ تھا کہ ان کی تعداد کوئی دس بارہ ہو گی میں اکیلا تھا اس لیے میں انکے پچھے چل پڑا لیکن ان کی ایک بڑی تعداد شاید کہی اور روکی ہوئی تھی جب تم مجھے ملے تو اس لیے میرا خیال تھا کہ ہم ان کو روک لے گے لیکن اب شاید ان کی تعداد 200سے 250 کے قریب ہو گی ۔
  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ معظم علی کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک طرف سے آگ کے شعلے نکلنے شروع ہو گئے شاید انہوں نے کسی گھر کو آگ لگا دی تھی ۔ساتھ ہی گولیوں کی بھی آواز آنی شروع ہو گئی تھی ۔معظم علی اندرے میں آنکھیں کھول کھول کر دیکھ رہا تھا ۔اس کو دیوار کے ساتھ درخت پر کچھ آدمیوں کی حرکت محسوس ہوئی اور ساتھ ہی معظم کی بندوق سے دو فائر ہوے اور دو آدمی دیوار سے نیچے گرے تو باقی درخت سے نیچے کود گئے ۔اب کی بار فائرنگ میں تیزی ہوئی تھی ۔شاید دوسری طرف سے کچھ ڈاکو اندر آ گئے تھے ۔معظم نے شہباز کو وہی روکنے کا کہا اور خود نیچے جا کر حالات کا جائزہ لینے لگا دیوار کے ساتھ ایک پہریدار ادھ منہ پڑا تھا ۔اٹھ دس ڈاکو اندر کی طرف سے بہت آہستہ آہستہ دروازے کی جانب بڑ رہے تھے ۔معظم علی نے ایک دیوار کی اوٹ لے کر فائرنگ شروع کر دی ۔پلک جھپکنے میں دو سے تین ڈاکو ہلاک ہوگئے ۔ڈاکو اب زمین پر لیٹ کر جدھر سے فائرنگ ہوئی تھی اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے ۔معظم علی دیوار کے پیچھے ہو گیا لیکن شاید فائرنگ کرنے والے اب معظم کی طرف آگے بھی بڑھ رہے تھے ۔معظم علی نے بھی آگے سے فائرنگ کر دی ۔جس سے ان کی آگے بڑھنے کی رفتار کم ہو گئی ۔شہباز بھی چت سے لگاتار فائرنگ کر رہا تھا اس کی فائرنگ سے تین ڈاکو ہلاک ہو چوکے تھے لیکن اب محسوس ہو رہا تھا کے ڈاکووں نے گاؤں کے کافی گھروں کو آگ لگا دی تھی اور بیگ صاحب کے گھر میں اب مزاحمت دم توڑ رہی تھی معظم اور شہباز اب بھی پوری بہادری سے ان کا مقابلہ کر رہے تھے ۔لیکن وہ یہ بات جان گئے تھے کے اگر گاؤں والوں کی مدد نہ پہنچی تو جلد ڈاکو اس محل پر قبضہ کر لے گے ۔گھر کے دروازے پر اب ڈاکوؤں کا قبضہ تھا  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ معظم علی نے اللّه اکبر کا نعرا لگایا اور دیوار سے باہر نکل کر پوری قوت سے دروازے کی جانب فائرنگ شروع کر دی ڈاکووں کو اس طرح کے حملے کی قطی امید نہیں تھی ۔وہ گبھرا کر باہر کی جانب بھاگے لیکن باہر سے بھی تیروں اور گولیوں کی بارش ہو رہی تھی 
  ۔  ۔  ۔  ۔ شاید گاؤں والے پہنچ گئے تھے معظم کی جانب کئی ایک فائر ہوے تھے خوش قسمتی سے معظم محفوظ رہا تھا ۔اب باغ سنگ کو سمجھ آ گئی تھی کہ یہاں سے بھاگنا  ہی بہتر ہے ۔ڈاکووں نے اپنے گھوڑوں کا  رخ  مشرق کی جانب موڑ دیا کیوں کہ اس طرف آبادی کم تھی گاؤں والوں کو چوہدری ابرار لے کر آیا تھا ۔وہ بھی ڈاکووں کے پیچھے لگ گیا اس کے ساتھ گھوڑوں پر ماجود کوئی 30،40  آدمی تھے جو ڈاکووں کا پیچھا کر رہے تھے ۔ساتھ ہی فائرنگ بھی کر رہے تھے ڈاکو بھی اپنے پیچھے آنے والوں پر فائرنگ کر رہے تھے ۔اتنے  میں چوہدری ابرار کے گھوڑے کے قریب سے ایک نوجوان بڑی تیزی سے سارے گھوڑوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا ۔
 چوہدری ابرار اس کو آوازے دے رہا تھا کہ آگے مت جاؤ اگے خطرہ ہے ۔لیکن وہ نوجوان ڈاکووں کے پاس جا پہنچا ۔اور اب باری باری ڈاکو ہلاک ہو کر گھوڑوں سے نیچے گر رہے تھے ۔چوہدری ابرار نے ایک بار پھر سب کو ڈاکووں کا پیچھا کر نے کا کہاں لیکن ڈاکو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے اور نوجوان کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا شاید وہ اب بھی ان کے پیچھے تھا ۔چوہدری ابرار غصے سے بولا کون ہے یہ بیوقوف ۔ساتھ گھوڑے پے مجود آدمی نے جواب دیا جی وہ معظم علی ہے ۔چوہدری ابرار بولا اللّه اسے اپنے حفزو ایمان میں رکھے ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔جاری ہے 
یہ بھی پڑیں 
Reactions

Post a Comment

0 Comments

Close Menu