Best story for a history ~ Bangladesh in urdu #4

چوہدری ابرار کا گھوڑا بہت تھک چکا تھا اور ساتھ ہی اس کے گاؤں والے بھی اب تھک چکے تھے لیکن معظم کا ابھی بھی کچھ پتا نہیں تھا وہ کافی دیر سے ڈاکوؤں کے پیچھے گیا ہوا تھا
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1 ۔
گاؤں میں سے ایک آدمی بولا چوہدری صاحب مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں اور آگے نہیں جانا چاہئے ۔ہمارے گھوڑے تھک چکے ہیں اور ابھی تک ڈاکوؤں کا اور معظم علی کا کچھ پتا نہیں کیوں نہ ہم تھوڑی دیر یہاں رک کر اس کا انتظار کر لے چوہدری ابرار بولا ٹھیک ہے اور پھر سارے ہی رک کر انتظار کرنے لگے ۔لیکن یہ انتظار زیادہ لمبا نہ ہوا کیونکے مشرق کی جانب سے کوئی گھوڑا دوڑاتا  ہوا نظر آ رہا تھا اور اس کے آگے آگے سات سے آٹھ گھوڑے بھی تھے ۔
سورج اب اس گڑھ سوار کے بلکل پیچھے تھا ۔چوہدری ابرار کا نوکر بلند آواز میں بولا یہ معظم علی ہے ۔۔۔۔۔۔۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ میں نے اس کو پہچان لیا ہے
اور بھاگ کر آگے آتے ہوئے گھوڑوں کو پکڑنے لگا گھوڑے بہت تھکے ہوئے تھے اس لیے جلد ہی سارے پکڑ لیے گئے معظم علی کا گھوڑا پسینے سے شرابور تھا اور معظم علی کے بازو سے بھی خون نکل رہا تھا ۔قریب آتے ہی معظم گھوڑے سے اترا اور زمین پر لیٹ گیا ۔
چوہدری ابرار مسکراتا ہوا اس کے پاس آیا بولا ۔برخوردار کیسے ہو ۔
میں ٹھیک ہوں چچا جی ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ کوئی 10 سال کا لڑکا خاور گلی میں بھاگتا ہوا آیا اور شور مچا نے لگا وہ آ رہے ہیں ۔معظم اور چوہدری صاحب بھی ساتھ ہیں ۔انن فنن میں گلی لوگوں سے بھر گئی عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں جبکہ شہباز ڈول والے کو اشارہ کرنے لگا ۔ڈول والا بلکل تیار تھا ساتھ ہی ڈول کی آواز پورے زوروں سے گونجنے لگی ۔یہ قافلہ مسجد کے پاس آ کر رک گیا ۔امام صاحب نے آگے بڑھ کر معظم کو گلے لگا لیا ۔بولے تمہارا بازو تو ٹھیک ہے نہ ۔معظم بولا امام صاحب پریشانی کی کوئی بات نہیں یہ ایک تیر بازو پر لگا تھا لیکن اب میں ٹھیک ہوں ۔میں نے پٹی باندھ رکھی ہے جیتے رہو بیٹا اب جلدی سے نماز پر لو سارا مرشدہ باد تم لوگوں کا انتظارکر رہا ہے چوہدری ابرار بولا مولوی صاحب گاؤں والوں کا زیادہ نقصان تو نہیں ہوا ۔امام صاحب بولے ۔خدا کا شکر ہے ۔گاؤں کا تو خاص نقصان نہیں ہوا لیکن بیگ صاحب کے گھر  ۔ پر کافی نقصان ہوا ہے ۔چلے اب نماز پر لے امام صاحب مسجد کی جانب اشارہ کر کے بولے
  ۔  ۔  ۔  ۔ معظم علی
  ۔  ۔  ۔ جیسے ہی نماز پر کر باہر نکلا تو ڈول والے نے ایک بار پھر ڈول بجانا شروع کر دیا ۔اور شہباز نے آگے بڑھ کر معظم کو گلے لگا لیا ۔آج گاؤں میں ایک میلے کا سماں معلوم ہوتا تھا ۔ہر کوئی خوش تھا پوری گلی لوگوں سے بھری ہوئی تھی ۔بچے ڈول کے آگے بھنگڑھاڈال رہے تھے اور معظم کو ہر کوئی گلے لگا کر مل رہا تھا ۔گاؤں کی عورتیں بھی اس کی بلائیں لے رہی تھی جیسے ہی یہ قافلہ چوہدری صاحب کے گھر کے قریب پہنچا معظم علی کی نظر ایک آنجہانی چہرے پر پڑھی وہ پروین تھی ۔معظم کا دل زور سے دھڑکا ۔
نہیں شاید وہ کوئی اور ہے ۔وہ قافلے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی اس کی خوب صورت آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں ۔وہ پروین ہی ہے دل نے ایک بار پھر پکار کر کہا ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔ لیکن معظم ان لڑکوں میں سے نہیں تھا جو ایک لڑکی کی خاطر اپنا سب کچھ برباد کر لیتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ پروین کبھی بھی اس کی نہیں ہو سکتی ۔اس کے اور چوہدری صاحب کے گھر میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ کوئی شاعر نہیں جو اس کی خاطر تاروں پر کمند ڈال کر پروین کو خوش کر دے گا ۔قافلہ آگے بڑھ گیا ۔لیکن معظم کا دل اب بھی اس لڑکی کے چہرے پر اٹکا ہوا تھا ۔شاید وہ سمندر کی کوئی لہر تھی جو معظم کے دل سے ٹکرا کر آ جا رہی تھی ۔  ۔  ۔  ۔  ۔
آگے ساتھ ہی معظم کا گھر تھا جہاں پر اس کے  ماں باپ نے معظم کی بلائیں لی آج معظم کی ماں بہت خوش تھی اور باپ تو فخر سے بیٹے کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ماں نے جلدی سے معظم کے سر سے پیسے وار کر نوکر کو دیے اور بولی جاؤ اسے غریبوں میں بانٹ دو ۔


  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ اس واقعے کو ابھی زیادہ دن نہیں ہوے تھے کے شاہی فرمان آ گیا کے ملک کو نوجوانوں کی ضرورت ہے انگریز حملے کی تیاری کر رہا ہے اور دوسری جانب مرہٹے
کسی بھی وقت لکھنو پر حملہ کر دے گے
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ خبر ملی تھی کہ لکھنؤ سے کوئی 200  میل دور مرہٹے اپنی فوج اکھٹی کر رہے ہیں اور اس کوئی 100میل دور ہی مرشدہ باد تھا جہاں سے نوجوان جوک در جوک شاہی دربار میں جا کر اپنی اپنی خدمات پیش کر رہے تھے ۔
  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ ۔ ایک دن معظم گھر آیا تو اس کے گھر سے کوئی 4 ۔5 لڑکیاں نکل کر جا رہی تھیں   ۔ ۔معظم نے اپنی ماں آمنہ سے پوچھا یہ کون تھیں آمنہ بولی ۔پروین اپنی سہیلیوں کے ساتھ آئی تھی   ۔  ۔  ۔  ۔ پروین کا نام سن کر معظم کا رنگ ایک دم لال ہو گیا اور جلدی سے اس نے دوازے کی جانب دیکھا ۔جیسے وہ ابھی بھی ادھر ہی ہو ۔لیکن وہاں پر کوئی نہیں تھا وہ جا چکی تھی ۔آمنہ بولی یہ چوریاں وہ دے کر گئی ہیں تمہارے لیے ۔اور بول رہی تھیں کے اگر وطن کی خاطر نہیں نکل سکتے تو یہ چوڑیاں پہن لو ۔معظم ہلکا سا مسکرایا بولا یہ پروین نے دی ہیں ۔آمنہ بولی نہیں اس کی سہلیوں نے وہ تو بس ساتھ آئی تھی لیکن وہ بھی ہس ہس کر ان کا ساتھ دی رہی تھی ۔معظم غصے سے باہر نکلا تو سامنے چوہدری ابرار کا نوکر تھا ۔بولا معظم صاحب آپ کو چوہدری صاحب بلاتے ہیں معظم بولا ان سے بولو میں آتا ہوں ۔نوکر  بولا جلدی آنا جی وہ تھانیدار صاحب آے ہیں اصل میں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔اچھا چلو میں ساتھ چلتا ہوں ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔   ۔  ۔  ۔  ۔  ۔   ۔ ۔  ۔  ۔ تھانیدار اکرم کوئی 40 سال کا ایک کڑ یل آدمی تھا وہ اور چوہدری ابرار دیوان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے چوہدری ابرار بولا معظم بہت ہی پیارا نوجوان ہیں جب ڈاکووں نے حملہ کیا تھا تو وہ اکیلا ہی ان کے پیچھے لگا رہااور ڈاکووں کو بھگنے پر مجبور کر دیا اور ساتھ ہی واپسی  پر آٹھ گھوڑے اور دس بندوقے بھی لے کر آیا میرے خیال میں اس نے کوئی 15 ڈاکو ہلاک کیۓ ہوں گے ۔تھانیدار بولا اس میں کوئی شک نہیں ہے کے وہ ایک بہادر نوجوان ہے ۔اتنے میں نوکر اندر آیا اور بولا چوہدری صاحب معظم آ گیا ہے ۔چوہدری بولا اسے اندر لے آو ۔معظم نے اندر آتے ہی اسلام علیکم بولا تھانیدار نے معظم کو گلے لگا لیا ۔چوہدری ابرار بولا جی یہ ہے معظم بیٹھ جاؤ معظم ۔جی شکریہ چچا جی ۔تھانیدار بولا بھئی چوہدری صاحب بتا رہے تھے کے تم نے کس طرح اکیلے ہی ڈاکو مار بھگاۓ ۔اور سرکار بھی تم سے بہت خوش ہے؛ اس پی ؛ صاحب نے خصوصی طور پر تم سے مل کر تمہارا شکریہ بولنے کا کہا ہے میں خود بھی تمہیں ملنا چاہتا تھا ۔معظم بولا جی بہت بہت شکریہ لیکن ڈاکووں کو میں نے اکیلے نہیں بھگایا پورا گاؤں میرے ساتھ تھا اور چوہدری صاحب اور شہباز بھی تو میرے ساتھ تھے اس بار ابرار صاحب بولے لیکن جی کام بیٹا تم نے کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکا ۔جی شکریہ معظم بولا تھانیدار بولا چوہدری صاحب بتا رہے تھے کے آپ فوج میں نہیں جانا چاہتے ۔جی وہ ٹھیک کہتے ہیں ۔میں وجہ جان سکتا ہوں تھانیدار بولا ۔جی وجہ یہ ہے کے میں ایک ایسے حکمران کے لیے نہیں لڑ سکتا جس کو یہ بھی نہ پتا ہو کے اس کے دوست کون ہیں اور دشمن کون ۔ایک دن تو وہ مرہٹوں سے جنگ کرتا ہے اور دوسرے دن صلح کر لیتا ہے ۔اس بار چوہدری ابرار بولا تم علی وردی خان کی بات کر رہے ہو ۔جی چوہدری صاحب معظم بولا ۔دیکھو برخوردار علی وردی خان کے معتلق بات کرتے ہوئے ذرا سوچ کر بات کرنا آخر وہ ہمارا حکمران ہے   ۔  ۔  ۔  ۔ ۔  ۔  ۔  ۔
جاری ہے
پچھلی پوسٹ کے لیے یہاں کلک کریں
معظم علی بنگال کا ایک ہیرو 5


Reactions

Post a Comment

0 Comments

Close Menu