Best story for a history of Bangladesh in Urdu #1


زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی معنی رکھتی ہے تو صرف اور صرف انسان کی عزت اور وقار ۔
کیا تم یہ دیکھنا پسند کرو گے کہ تم زندہ ہو  لیکن کاش زندہ نہ ہوتے ۔

جب تمہاری عورتوں کی عزتیں تمہارے سامنے لوٹی جائیں گی اور تمہارے بچوں کو ذبح کر دیا جائے گا  ۔
تب تمہیں محسوس ہوتا کہ کاش اس سے بہتر تھا کہ میں بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے مر جاتا اور یہ منظر کبھی نہ دیکھتا  ۔
میرے بھائیوں یاد رکھو اگر آج تم نے بہادری نہ دکھائیں تو مرہٹے ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے ۔
تم میں سے ہر کوئی یہ عہد کرلے کے خون کے آخری قطرے تک مقابلہ کریں گے ۔
ہماری تعداد بھلے ہی کم ہو

لیکن بہادری مرہٹوں سے کم نہیں ہونی چاہیے ہمارا مقصد ان سے بڑا ہے وہ صرف لوٹ مار کرنے کی غرض سے آئے ہیں لیکن ہمارے سامنے ہمارے گھر کی عزت بچانا ضروری ہے جو کہ ایک بڑا کام ہے ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
معظم علی یہ بات کرکے دیوار سے نیچے اترا اور گھوڑے پر بیٹھ گیا ۔
اور سب کو ہدایت کی کہ اپنی اپنی پوزیشن لے لی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی مجھے پکا یقین ہے کہ مرہٹے اب کی بار زیادہ طاقت کے ساتھ حملہ کریں گے ۔
معظم علی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دیوار کا چکر لگانے لگا مشرق کی سمت سے سے معلوم ہوا کہ اس طرف مرہٹے جمع ہو رہے ہیں ۔
اور ممکنہ طور پر وہ اس طرف سے ہی حملہ کریں گے ۔تھوڑی ہی دیر بعد شمال کی طرف سے چھتوں سے حملہ شروع ہو گیا ۔
معظم علی نے سب کو بتایا یہ صرف آپ لوگوں کا دھیان بٹانے کے لیے اس طرف سے گولیاں چلا رہے ہیں آپ لوگوں کا دیہان مشرق کی طرف ہونا چاہیے ۔
اکا دکا لوگ شمال کی طرف ان کی گولیوں کا جواب دیتے رہے ۔
تھوڑی ہی دیر بعد حویلی کی دیوار دھرم سے گری
اور مرہٹوں نے پوری قوت کے ساتھ حویلی پر حملہ کر دیا توپوں کا استعمال ایک دفعہ پھر کیا گیا
مرہٹوں کی لاشیں گر رہی تھیں لیکن پھر بھی وہ روک نہیں رہے تھے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے
ان کی تعداد بہت زیادہ تھی معظم علی نے سبکو حویلی کے بیرونی احاطے کو چھوڑ کر حویلی کےاندرونی احاطے کی طرف  صف بندی ہونے کے لیے کہا یہ مرہٹوں کو روکنے کے لیے آخری حصار تھا صف بندی کرنے کے بعد معظم علی نے  بھرپور حملہ کرنے کے لئے کہا ۔
اب کی بار سپاہیوں نے اپنی جان لڑا دی اور  پوری طاقت کے ساتھ مرہٹوں پر حملہ کیا 
مرہٹے ایک دفعہ منتشر ہو گئے لیکن ان میں میر حبیب بھی شامل تھا  ۔
وہ پیچھے سے لوگوں کو آوازیں دے رہا تھا ۔
کیا تم مرہٹے بزدل ہوں اتنا نقصان اٹھانے کے بعد پیٹ دیکھا کر بھاگ رہے ہو ۔
اور شائد تمہیں پتا نہیں کہ پورے محلے کا خزانہ حویلی میں ہیں  ۔
بہادروں ابھی آخری حملہ کرنا ہے اور ہم ان کو مار گرائینگے ۔
مرہٹے ایک بار پھر واپس مڑے اور پوری طاقت کے ساتھ حویلی پر حملہ کر دیا ۔
مرشد آباد کے سپاہی اب گرنا شروع ہو گئے تھے ۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے چند ہی منٹوں میں مرہٹے حویلی پر قابض ہو جائیں گے ۔
معظم علی نے اپنا ایک دستہ تیار کیا جو بیس آدمیوں پر مشتمل تھا
اور مرہٹوں کی صفوں میں گھس کر ایک بھرپور حملہ کیا  ۔معظم علی کو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس کا آخری حربہ ہے ۔
اس کےبعد مرشد آباد کا خدا حافظ ۔
اتنی دیر میں گلی میں گھوڑوں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی گولیاں بھی تیزی کے ساتھ چلنی شروع ہو گئی ۔
مرہٹے بکلاہٹ کا شکار تھے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے ۔
ایک مرہٹہ افسر بلند آواز سے بولا ۔
بھاگو بھاگو بنگال کی فوج آگئی ہے ۔
یہ بات سنتے ہی مرہٹے باہر کی سمت کو بھاگے ۔
معظم علی نے اپنے ساتھیوں کو کہا بہادر چلو ان کے پیچھے ۔
ایسا نہ ہو کہ یہ ایک بار پھر پلٹ کر حملہ کردیں
اب کی بار مرہٹوں کی سپیڈ اور بھی تیز ہو گئی تھی ۔
معظم علی مسلسل ان کا پیچھا کر رہا تھا شعیب کا گھوڑا بھی معظم کے ساتھ ہی  تھا ۔
معظم علی نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے پیچھے ہونے کا کہا ۔
لیکن وہ معظم علی  سے بھی آگے نکل گیا  ۔معظم علی نے غصے سے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور پوری قوت سے گھوڑا آگے کی طرف بھاگنے لگا ۔مرہٹے اپنا سامان پھینکتے جارہے تھے تاکہ وزن کم ہو اور گھوڑا تیز بھاگے ۔
اچانک تین مرہٹے گھوڑوں پر واپس مڑے اور شعیب پر حملہ کر دیا ۔
شعیب پوری بہادری سے ان کا مقابلہ کر رہا تھا لیکن تین کے مقابلے میں ایک آدمی کیا کر سکتا تھا ۔
جلد ہی معظم بھی شعیب کے ساتھ مل گیا  ۔اور اپنی تلوار سے دو کو مار گرایا  ۔تیسرے نے پھر بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی  ۔
معظم علی نے شعیب کے گھوڑے کی باغ پکڑ لی  ۔
معظم علی بولا میں جانتا ہوں تم ایک بہادر جوان ہوں لیکن اس طرح سے لڑنا بالکل خودکشی کے برابر ہے ۔
بس اب ہم مرہٹوں سے پیچھے نہیں جائیں گے شعیب اب بھی غصے میں تھا لیکن خموش ہو گیا
معظم اپنے ساتھیوں کو لے کر چوہدری صاحب کی حویلی کی جانب واپس مڑا ۔
مال غنیمت کے طور پر کوئی پچاس گھوڑے اور ڈیڑھ سو بندوق ۔
سپاہیوں کے ہاتھ آئی تھی حویلی میں شہباز اور صفدر بھی موجود تھے ۔
جو شاید مرشد آباد کی فوج کے ساتھ ہی آئے تھے
معظم کو دیکھ کر پہلے صفدر اور پھر شہبازنے گلے لگایا ۔
ہمیں اپنے محلے کا بہت ڈر تھا لیکن تم نے تو ہمارے گھر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے
بے شک معظم تم نے اچھی تیاری کی تھی 
اسی لئے اللہ نے ہماری عزت رکھی ۔
اب محلے والے سارے ہاویلی کے دیوان خانے برآمدے بالائی منزل سے باہر آ گئے تھے ۔
اور تشکر بھری نظروں سے معظم کی جانب دیکھ رہے تھے 
معظم نے کہا بھائیو اب تم اپنے اپنے گھر جاکر آرام کر سکتے ہوں اب لڑائی کا کوئی خطرہ نہیں 
معظم علی خود بھی بہت تھکا ہوا تھا لیکن حویلی میں کوئی دو سو سے تین سو مرہٹوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔
  ان کے بارے میں بات کرنے ہی والا تھا کہ شہباز نے کہا    تم آرام کرو باقی کا کام ہم کر لیں گے ۔
معظم علی دیوان خانے میں جا کر سو گیا ۔
معظم علی کی جب آنکھ کھلی تو دن کے 3 بج رہے تھے  ۔
اس نے جلدی سے وضو کیا اور  ظہر کی نماز کمرے میں ہی ادا کی  ۔
دروازے کے ساتھ ہی نوکر کھڑا تھا بولا جناب چوہدری صاحب آپ کو یاد کرتے ہیں بول رہے تھے کہ جب آپ اٹھ جائیں  تو چوہدری صاحب سے مل لے ۔
چوہدری صاحب سے مل کر معظم کو معلوم ہوا کہ میر مدن جو بنگال کا سپہ سالار تھا
یہاں آیا تھا لیکن آپ سو رہے تھے اس لیے واپس چلا گیا اور آپ کو جگانا   مناسب نا سمجھا  ۔
چوہدری صاحب نے مزید بتایا کہ وہ آپ کا شاہی محل میں انتظار کر رہا ہے ۔
شاہی محل میں پہنچ کر معظم علی ایک فوجی افسر کے دفتر میں جا کر بیٹھ گیا ۔
فوجی افسر بولا جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں  ۔میرا نام معظم علی ہے اور مجھے مدن صاحب نے بلایا تھا ۔
فوجی افسر اپنی کرسی سے اٹھ کر معظم سے گلے ملا  ۔
فوجی افسر بولا یقین معنی میں سمجھا تھا آپ کوئی بڑی عمر کے شخص ہونگے ۔لیکن آپ تو بالکل نوجوان ہیں ۔
چلیے میں آپ کو میر صاحب کے پاس لے چلتا ہوں ۔
اور پھر وہ لمحہ بھی آیا جب معظم علی نے پہلی بار کسی سپاسالار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
یہ میر مدن تھا بنگال کا سپہ سلار قوت و جبروت کا ایک مکمل پیکر ۔
جن کی شخصیت سے ہی بہادری عیاں تھی سپہ سالار نے معظم کو بیٹھنے کے لیے کہا ۔
اور بولا مجھے نہیں پتہ کہ آپ کو فوج سے کیا پریشانی ہے ۔لیکن میرا دل کہتا ہے کہ آپ جیسے آدمی کو فوج میں ہونا چاہیے ۔معظم علی مولا مجھے فوج سے کوئی پریشانی نہیں مجھے حکمرانوں سے پریشانی ہے ۔یہ کیوں مسلمانوں کو ایک قوم نہیں بناتے  ۔
میر مدن بولا برخوردار ایک بات یاد رکھو ۔
سیاسی لیڈروں کی غلطیوں کا کفارہ سپاہی اپنی تلوار اور جان سے کرتے ہیں ۔
اور شائد تمہیں پتا نہیں ہے کہ اس وقت بنگال کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ بہت سارے شہروں پر مرہٹے قبضہ کر چکے ہیں ۔
اور ہمارے پاس لائک افسروں کی پہلے ہی کمی ہے ۔میں تمہیں دو دن کا وقت دیتا ہوں سوچنے کے لیے میرے خیال میں تمہیں بنگال کی فوج کو جائن کر لینا چاہیے  ۔
معظم علی نے کہا سر دو دن کیا جب آپ اتنے مہربان ہیں تو میں آج ہی سے جوائن کروں گا ۔میر مدن بولا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے ۔
ہم کل صبح ہی مرہٹوں سے شہر خالی کرانے کے لئے نکل رہے ہیں تو ایک دستے کی کمان تم خود کرو گے ۔ابھی تو گھر جا سکتے ہو پھر جانے کب گھر جانا نصیب ہو ۔
معظم علی کی فوج میں جانے کی خوشی سب سے زیادہ اس کے والد اور والدہ کو ہوئی اس کے بعد چوہدری صاحب پروین شہباز اور صفدر کو ۔
معظم چوہدری صاحب کے گھر چوہدری صاحب کو ملنے آیا تھا   ۔
لیکن چوہدری صاحب نے اصرار کیا کہ شام کے کھانا آپ ہمارے ساتھ ہی کھاہیں ۔پہلے تو معظم نے منع کردیا لیکن پھر شہباز اور صفدر کے اسرار  پر مان گیا  ۔
شام کی نماز ادا کرنے کے بعد معظم ایک بار پھر چوہدری صاحب کی حویلی کی جانب چل پڑا ۔کھانے میں کوئی خاص بات نہیں تھی کھانا کھانے کے بعد  معظم علی نے شہباز سے کہا کہ میں ذرا چوہدری صاحب کی لائبریری آخری دفعہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔شہباز نے کہا ٹھیک ہے تم آرام سے لائبریری دیکھو مجھے ایک کام ہے  ۔معظم جیسے ہی اندر داخل ہوا تو اس کو پرانی یاد آنے لگی ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ پروین اس جگہ کھڑی تھی اور ساتھ ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔بے اختیار دل نے پکارا کہ کاش پروین میری ہوتی ۔
لیکن میں تو چوہدری صاحب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں پھر وہ مجھے پروین کیوں کر دے گے ۔اب میں جب جاؤں گا تو شاید واپسی پر اس کی شادی ہو جائے ۔اتنی دیر میں سلمیٰ پروین کی والدہ اور خود پروین اس کے سامنے کھڑی تھی   ۔پروین نے چہرے پر چادر کی ہوئی تھی ۔
معظم جلدی سے آگے بڑھا اور بولا سلام چچی جان ۔سلمابی بی نے بھی کے سر پر پیار دیا اور بولی جیتے رہو بیٹا ۔
میں نے سنا ہے کہ تم صبح مرہٹوں کے خلاف محاذ کے لیے جا رہے ہو ۔
جی چاچی جان انشاءاللہ میں صبح جا رہا ہوں آپ میرے لیے دعا کرنا ۔
پروین جلدی سے بولی پھر کب آو گے معظم کا دل زور سے دھڑکا ۔پروین اس سے بات کررہی تھی  ۔اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہو سکتی ۔
معظم بولا کچھ پتا نہیں شاید دو یا تین سال لگ جائیں ۔
سلمہ بولیں پروین کی والدہ ۔
اچھا بیٹا میں زرہ چائے کا بتا کر آتی ہوںچائے پی کر جانا ۔تب تک تم پروین سے باتیں کرو ۔
سلما کےجانےکےبعد پروین نے کہا اگر آپ نے کتابیں دیکھ لی ہو تو صحن میں چل کے بیٹھتے ہیں ۔
جی ٹھیک ہے باہر چلتے ہیں معظم بولا ۔
معظم آج بہت خوش تھا اج خدا نے اسکو ساری خوشیاں دے دی تھی ۔
معظم کی نظر بار بار پروین کے چہرے پر جا کر ٹھہر جاتی تھی  ۔اور بار بار وہ اپنے دل سے پوچھتا کیا کوئی اتنا حسین بھی ہو سکتا ہے ۔
دوسری طرف پروین کی بھی یہی حالت تھی  اس کے سپنوں کا ہیرو اعجاز کے سامنے تھا   ۔
اچانک پروین نے دوسری طرف منہ کر لیا کیوں کے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔
اس خیال سے کے معظم اس کا نہیں  ہے ۔معظم کا دل بھی تڑپ اٹھا ۔
جلدی سے بولا کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے ۔
پروین بولی آپ جا رہے ہیں پتا نہیں پھر آپ سے ملاقات ہو کہ نہیں ۔معظم بولا کیوں میرا جانا آپ کو پسند نہیں ۔
پروین بولی نہیں نہیں ایسی تو بات نہیں ایک سپاہی میدان میں ہی اچھا لگتا ہے  ۔لیکن ۔
اس کے آگے پروین خاموش ہوگئی ۔
اس لیکن کا مطلب معظم جانتا تھا ۔لیکن وہ بھی دل کو یہ سمجھانے میں لگا تھا ضروری نہیں جو چیز انسان چاہتا ہے وہ مل جائے ۔اور ویسے بھی ایک مجاہد کی شان میدان میں اپنی بہادری کے کارنامے میں ہوتی ہے  ۔
اگر پروین میرے مقدر میں ہے تو مجھے ضرور مل جائے گی ۔
شہادت کا جذبہ زندہ رہنا چاہیے ۔اتنی دیر میں سلمیٰ بھی آگئی ۔
چاۓ سے فارغ ہونے کے بعد معظم سیدھا گھر کی جانب چل پڑا  ۔
پوری رات وہ پروین کے بارے میں سوچتا رہا ۔
صبح کی نماز پڑھی اور شاہی محل میں اپنا 5000 کا دستہ لے کر  ہود شہر پر حملہ کر دیا جہاں پر مرہٹے قابض ہو چکے تھے اس کے ساتھ شہباز اور صفدر بھی اپنے اپنے دستے کی کمان کررہے تھے ۔
شام شام تک گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی اور آخرکار مرہٹے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے ۔اسی طرح بعض اور شہر مرہٹوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے بعد علی وردی خان نے حکم جاری کیا کہ اڑیسہ کی سرحد کے پار کوئی نہیں جائے گا ۔
ہم اپنا قیام یہی تک کریں گے ۔
تھوڑی دیر بعد میر مدن علی وردی خان کے خیمے میں داخل ہوا اور بولا اجازت ہے عالی جاہ ۔
علی وردی خان بولا اجازت ہے
سپہ سالار میر مدن بولا عالیجاہ ہمارا ایک افسر اڑیسہ کی سرحد سے کوئی پچیس تیس میل دور مرہٹوں کے قلعے پر حملہ کرنے کے لئے نکل پڑا ہے ۔
علی وردی خان غصے سے بولا لیکن اڑیسہ سے آگے جانے کے بارے میں میں نے منع کیا تھا ۔
پھر اس کی ہمت کیسے ہوئی میری حکم عدولی کرنے کی 
میر مدن بولا عالیجاہ آپ کے حکم سے پہلے وہ نکل چکا تھا ۔
علی وردی خان بولا اچھا ۔کون ہے وہ افسر
میر مدن بولا عالیجاہ اس کا نام معظم علی ہے
جاری ہے ۔
پچھلی پوسٹ کے لیے یہاں کلک کریں 


Reactions

Post a Comment

0 Comments

Close Menu