مرہٹوں کے حملے کی بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پورے محلے کے لوگ اپنے اپنے عورتوں اور بچوں کو لے کر چوہدری ابرار کی حویلی کی طرف بھاگے
دوسری جانب مرشد آباد کے فوجی دار کے گھر میں مرہٹوں سے صلح کی خوشی میں ایک پارٹی رکھی ہوئی تھی جس میں امیر لوگوں کو دعوت دی گئی تھی ۔
فوجی دار نے اپنے نوکر سے معلوم کیا پتہ کرو چوہدری ابرار بھی آیا ہے کہ نہیں ۔
نوکر بولا جی سرکار میں ان کے پاس دو دفعہ گیا ہو لیکن وہ کہ رہے ہیں کہ میری آج طبیعت ٹھیک نہیں ۔
پاس ہی جگت سیٹ کھڑا تھا وہ بولا فوجدار صاحب وہ نہیں آئیں گے وہ جنگ کی تیاری کر رہے ہیں انہیں ڈر ہے کہ مرہٹے ان کے محل پر حملہ کر دیں گے ۔
یہ بات سن کر پورے ہال میں ایک زور دار قہقہ بلند ہوا ہے ایک بولا میں نے سنا ہے کہ چودھری صاحب کو کسی نجومی نے بتایا ہے کہ ان کے محل پر حملہ ہوگا اور ان کی ساری دولت مرہٹے چھین کر لے جائیں گے ۔
دوسرا بولا لیکن میں نے تو سنا ہے چودھری صاحب کو خواب آئی تھی کہ ان کا سارا مال و متاع مرہٹے لوٹ کر لے جا رہے ہیں ۔
ایک اور بولا ۔
ارے یہ بات نہیں وہ حاجی صاحب کا لڑکا تو جنگ کے لیے گیا نہیں اس لئے وہ اب اپنی پشیمانی کو چھپانے کے لیے چوہدری ابرار کا استعمال کر رہا ہے ۔
فوجی دار نے محسوس کیا کہ یہ بات اب ختم ہونے والی نہیں چناچہ جلدی سے بولا
جوگت سیٹھ صاحب میں نے تو سنا ہے کہ آپ نے بھی دو تین سو بندے بھرتی کرلیے ہیں مرہٹوں کے حملے کے ڈر کی وجہ سے ۔
جوگت سیٹھ نظریں چراتا ہوا بولا۔ارے سرکار کیا کریں اگر معظم علی کی بات سچ نکلی تو پھر ۔
ابھی جوگت سیٹھ کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ نوکر نے آکر بتایا ۔سرکار ایک گھڑ سوار سپاہی آیا ہے ۔
وہ بولتا ہے کہ آپ سے ابھی ملنا بہت ضروری ہے ۔
سپاہی کا گھوڑا پسینے سے شرابور تھا ۔فوجدار نے اس سے آتے ہی سوال کیا کیا بات ہے سب خیریت تو ہے ۔
سپاہی بولا سرکار کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے وہ مرہٹے کافی آگے نکل آئے ہیں۔دور کی چوکی والوں نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ مرہٹے مرشد آباد پر حملہ کر دیں گے ۔
فوجدار بولاان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کتنی دور ہیں ۔سپاہی نے کہا سرکار ان کی تعداد کا صحیح علم نہیں لیکن دس ہزار سے شاید اوپر ہو اور وہ کوئی دو تین منزلیں ہی اب دور ہیں ۔
فوجدار سپا ہی سے بولا تم شہر میں منادی کروا دوں اور شاہی محل مرشدآباد میں جا کر چھاؤنی میں جتنے بھی فوجی ہیں سب کو تیاری کا حکم دے دو ۔
اب جو محفل قہقوں سے گونج رہی تھی فوجدار کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔
فوجدار نے بولنا شروع کیا کھانا بالکل تیار ہے آپ لوگ اطمنان سے کھائیں ۔ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ مرہٹے مرشد آباد پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ لوگوں کے پاس جتنے بھی نوکر چاکر اور خود بھی ہتھیاروں سے لیس ہوجائیں اور لڑائی کے لیے بالکل تیار رہیں ۔انشاءاللہ مرہٹوں کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ پوری عمر یاد رکھیں گے اب آپ اطمنان سے کھانا کھائیں مجھے جانا ہوگا اللہ حفیظ ۔
فوجی دار کی یہ بات سن کر محفل میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ۔اور ہر کوئی کھانے کو چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف بھاگا ۔
دوسری جانب معظم علی محلے کی گلیوں میں خاص خاص جگہوں پر پہرے داروں کو تعینات کر رہا تھا اور گلیوں میں مرہٹوں کے گھوڑوں کو روکنے کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہا تھا ۔
جو گھر نسبتا اونچے تھے ان کے اوپر بھی آدمی مورچہ زن ہوکر بیٹھ گئے معظم علی ساتھ ساتھ ان کو تلقین کر رہا تھا تک کوئی بھی آدمی اپنے مورچہ سے نہ ہلے اور جیسے ہی پہلا نقارہ بچتا ہے ۔ایک بھرپور حملہ کیا جائے گا ۔
اب معظم علی کا رخ چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف تھا ۔حویلی کے چاروں طرف پہرے داروں کو کھڑا کرنے کے بعد معظم علی حویلی کی چھتوں پر آدمی نصب کرنے لگا ۔
اب ایک دفعہ سارے آدمی لگانے کے بعد معظم علی کو خیال آیا کہ میں ایک چکر لگا کے دیکھتا ہوں کہ کہیں کوئی کمی تو نہیں رہے گی ۔گلی میں اس کو جگت سیٹھ کا ایک نوکر ملا۔
نوکر بولا سرکار وہ جوگت سیٹ اپ کو بلاتے ہیں۔
اتنے میں جگت سیٹھ بھی نمودار ہوا ۔
بولا دیکھو بیٹا تم میرے گھر آ جاؤ میں اچھی رقم دونگا چاہو تو اپنے گھر والوں کو بھی میرے محل میں لے آؤ
معظم علی بولا سیٹھ صاحب آپ کے پاس ایک اچھا سپاسالار ہے عرفان وہ اپ کو مایوس نہیں کرے گا ہاں البتہ آپ اپنے کرائے کے جو اپنے محافظ بھرتی کئے ہیں ان کو تھوڑی ہمت دکھانے کی ضرورت ہے لیکن یہاں پر میرے محلے والوں کا کوئی بھی محافظ نہیں ہے ۔میں پیسوں سے زیادہ اپنے محلے والوں کو ترجیح دوں گا ۔معظم علی نے گھوڑے کی لگام ایک دفع پھر چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف موڑ دی۔
چوہدری صاحب کے گھر میں جوان کو انعام کے طور پر دو توپیں ملی تھی لوگ نصب کرنے میں مصروف تھے ۔چودھری صاحب نے معظم کی طرف دیکھا اور پوچھا بیٹا دیکھو ان کی یہ جگہ ٹھیک ہے ابرار نے ایک نظر مین دروازے کی طرف دیکھا پھر توپوں کی طرف دیکھا اور بولا چوہدری صاحب یہ بالکل ٹھیک ہیں ۔
چوہدری صاحب بولے ایک نظر اندر دیوان خانے اور بلائیں منزل پر بھی لگا لیں ۔
یہ لوگ اتنا شور کر رہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ میں کسی کا گلا گھونٹ دوں گا ۔
معظم علی جلدی سے اندر کی طرف گیا
نوکر بولا شکر ہے سرکار آپ آ گئے ہیں یہ لوگ اتنا شور کرتے ہیں ہر کوئی اپنے عورتوں اور بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ۔معظم علی نے سب کو خاموش ہونے کا کہا لیکن وہاں پر تو کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لہذا معظمکی بات کا کچھ اثر نہ ہوا اور شور بدستور جاری رہا ۔
معظم علی نے صحن کی طرف بندوق کا رخ کرکے ایک فائر کردیا تب حال میں ہر طرف سناٹا چھا گیا ۔
معظم علی جلدی سے بولنا شروع ہوا ۔
سب لوگ میری بات دھیان سے سنو اگر میری بات پر کسی نے عمل نہ کیا تو میں اس کو اور اس کی فیملی کو اس حویلی سے باہر نکال دوں گا ۔اب جن کی عمر 50 سال سے کم ہے وہ ادھر ہی رک جائیں اور باقی عورتیں اور مرد جن کی عمر 50 سال سے اوپر ہیں وہ بلائیں منزل پر چلے جائیں 50 سال سے کم عمر والے میں ساتھ آجائیں اور رضاکاروں میں شامل ہوجائیں ۔یہ بات یاد رکھیں اگر آپ لوگوں نے اپنا دفاع نہ کیا تو آپ کی عورتیں اور بچے محفوظ نہیں رہیں گے۔چناچہ پوری لگن اور محنت کے ساتھ کام کریں اور میرا ساتھ دیں افراتفری نہ پھیلائیں ۔
یہ کام ختم کرنے کے بعد معظم علی باہر نکلنے لگا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ۔
یہ پروین تھی ۔ معظم علی ایک ساعت کے لیے رک گیا ۔اسے یقین نہیں تھا کہ پروین اسے آواز دی گئ۔ پروین بولی معظم اس بات کا خیال رکھنا کہ اب سارے محلے کی عورتوں کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے ۔معظم علی ہلکا سا مسکرایا اور بولا
لیکن آپ نے تو مجھے چوڑیاں پیش کی تھی میں تو ایک بزدل شخص ہوں میرے خیال میں کم از کم آپ کی یہی سوچ ہے ۔پروین جلدی سے بولی۔
تومیں شاید غلط فہمی ہوئی ہے وہ چوڑیاں میں نے پیش نہیں کی تھی وہ تو جگت سیٹھ کی بیٹی تھی ۔جس نے اپنی چوڑیاں اتار کردیں تھیں مجھے تو کبھی یقین نہیں تھا کہ وہ ایسا عمل کرے گی ۔
اگر میری وجہ سے آپ کے دل کو ٹھیس لگی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں ۔اب معظم اس کی سادگی سے
محظوظ ہورہا تھا ۔
معظم بولا آپ پریشان نہ ہوں ۔اب خدا نے مجھے اپنے بہادر ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے لئے ایک موقع دیا ہے تو میں اپنی جان لگا دوں گا اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔یہ کہہ کر معظم حویلی کے دروازے کی طرف بڑھا وہاں پر موجود لوگوں کو اکٹھا کیا اور سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھا کر دس آدمیوں کو اپنے ساتھ چلنے کا بولا ۔
شعیب بھی ان میں آکر کھڑا ہو گیا جو حتمی طور پر پروین کا منگیتر ہونے والا تھا ۔
معظم علی بولا اب گھر کے اندر چلے جائیں آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپکو تو لڑنا بھی نہیں آتا ۔
شعیب بولا عورتوں کی طرح اندر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ میں بہادروں کی طرح آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑو ۔معظم علی کے پاس اتنا ٹائم نہیں تھا کہ وہ اس کو سمجھاتا بولا ٹھیک ہے اگر آپ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو آپ کو میری بات ماننی ہوگی ۔شعیب بولا آپ یہاں کے سپہ سالار ہیں آپ کے حکم کی کبھی بھی حکم عدولی نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تھوڑی ہی دیر بعد خبر ملی کے مرہٹوں نے باہر والی بستیوں کو لوٹنا شروع کردیا ہے اور ان کی کمان میرحبیب کررہا ہے جو کہ مرشد آباد کا ہی رہائشی تھا اور غداری کرکے مرہٹوں کے ساتھ مل گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرہٹوں کا ایک گروہ چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف بھی بڑھنے لگا لیکن راستے میں اس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔گلی میں لوگ مورچہ زن ہو کر بیٹھے تھے اور لگاتار گولیاں برسا رہے تھے ۔مرہٹوں کی تعداد ڈیڑھ دو سو سے زیادہ نہیں تھی لیکن جلد ہی ان کے ساتھ ایک بڑا گروہ آکر مل گیا جس سے ان کی تعداد 2000 سے 3000 ہوگی ۔ ۔ ۔
مرہٹوں کو یہ بخوبی علم ہو گیا تھا کہ محلے کے سارے گھر خالی ہیں ۔اب انہوں نے چھتوں پر چڑھ کر فائرنگ شروع کر دی فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ مورچے والوں کو اپنی جگہ چھوڑ کر حویلی کے اندر کی طرف بھاگنا پڑا ۔
مرہٹے یہ دیکھ کر آگے حویلی کی طرف بڑھے تو حویلی کے فصیل کے اوپر سے گولیوں کی بارش مرہٹوں کا سامنا کر رہی تھی ۔مرہٹے یہ دیکھ کر ادھر ادھر بکھر گئے ۔معظم علی نے نقارہ بجا نے کا کہا اس کا مطلب تھا کہ بھرپور حملہ کیا جائے ۔چنا چا نقارہ بجنے کی دیر تھی کہ چھتوں کے اوپر سے دیوار کے اوپر سے مورچہ زن ہوئے آدمیوں نے فائرنگ شروع کردی معظم علی حویلی کی چار دیواری کے اندرونی طرف سپاہیوں کو مسلسل ہدایت کر رہا تھا ۔لیکن جب معظم علی جنوب کی طرف پہنچا تو وہاں پر دیکھا کہ آدھی سے زیادہ دیوار گری ہوئی ہے ۔اور مرہٹے بڑی تیزی کے ساتھ حویلی کے اندر آرہے ہیں ۔اب تک تقریبا ڈیڑھ دو سو آدمی اندر آچکا تھا معظم علی نے واپس مڑ کر جلدی سے دوسرا نگارہ بجانے کا حکم دیا ۔
اس نقارے کا مطلب تھا کہ اب پسپائی اختیار کرے اور تھوڑا پیچھے ہٹ جائیں ۔گولیاں اورچیخیں اس قدر سنائی دے رہی تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے ۔سارے سپاہی پیچھے ہٹ کر حویلی کے سامنے صحن کی قطار میں کھڑے ہوگئے اور کچھ چھتوں
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1
پر چڑھ گئے ۔
مرہٹے دھڑا دھڑ اندر کی طرف آ رہے تھے اب کی بار جب معظم نے دیکھا کے مرہٹے توپوں کے بالکل سامنے آگئے ہیں تو معظم علی نے توپوں والے کو توپ چلانے کا حکم دیا آن کی آن میں مرہٹوں کی لاشیں صحن میں پڑی ہوئی تھی اور مرہٹے واپسی کی طرف بھاگے ۔مرہٹوں کی فوج کا ایک افسر یہ کہہ رہا تھا کہ یہ تو ایک قلعہ لگتا ہے ۔مرہٹے دبک کر بیٹھ گئے تھے ۔
فائرنگ رک چکی تھی اب دیوار کے پیچھے سے ایک سفید جھنڈا نمودار ہوا ۔اور ایک آدمی بلند آواز میں بار بار بول رہا تھا ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر کہو تو ایک آدمی آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجے
ادھر سے معظم علی نے جواب دیا کہ صرف ایک آدمی بات کرنے کے لئے آ سکتا ہے ۔
کچھ دیر بعد ایک آدمی جھنڈا لیتے ہوئے باہر نکلا اور حویلی کی طرف بڑھنے لگا
یہ بھی کوئی مرہٹوں کی فوج کا افسر لگ رہا تھا ۔
مرہٹہ افسر قریب آ کر بولا کے ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ آپ نے اتنی اچھی تیاری کی ہے لیکن آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے شکست تسلیم کر لی ہے ۔
البتہ میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں مجھے ایک لاکھ روپے دے دوں تو ہم یہاں سے خوشی خوشی چلے جائیں گے اور اپنا نقصان جو ہوا ہے بھول جائیں گے ۔
معظم علی بولا کے ہمارے پاس دینے کے لئے ہماری بندوقوں کی گولیاں ہیں ۔ ۔ ۔
مرہٹہ افسر بولا تم یقینا کسی غلط فہمی میں ہو ہماری تعداد ابھی ادھر ادھر بکھری ہوئی ہے ہم ایک بار پھر بھرپور حملہ کریں گے اکٹھے ہوکر ۔
معظم علی بولا اور تم بھی یہ بات بول رہے ہوں کہ جلد ہی ہماری فوج یہاں پہنچ جائے گی ۔
مرہٹہ افسر غصے سے بولا ہاں پہنچ جائے گی لیکن ان کو یہاں پر تمہاری لاشیں دفنانے کے سوا کوئی کام نہ ہو گا ہم تمہاری عورتوں کو اٹھا کر لے جائیں گے اور بچوں کو ذبح کردیں گے ۔ ۔ ۔ یہ ایک نفسیاتی دھمکی تھی جس کو معظم علی نے ہوا میں اڑا دیا معظم علی بولا دیکھتے ہیں پھر کس کی لاشیں گرتی ہیں ۔
مرہٹے افسر نے اپنا گھوڑا موڑا اور جنڈا پھینک کر اپنی فوج کے ساتھ جاملا اور حویلی سے باہر نکل گئے ۔جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پچھلی پوسٹ کے لیے یہاں کلک کریں
دوسری جانب مرشد آباد کے فوجی دار کے گھر میں مرہٹوں سے صلح کی خوشی میں ایک پارٹی رکھی ہوئی تھی جس میں امیر لوگوں کو دعوت دی گئی تھی ۔
فوجی دار نے اپنے نوکر سے معلوم کیا پتہ کرو چوہدری ابرار بھی آیا ہے کہ نہیں ۔
نوکر بولا جی سرکار میں ان کے پاس دو دفعہ گیا ہو لیکن وہ کہ رہے ہیں کہ میری آج طبیعت ٹھیک نہیں ۔
پاس ہی جگت سیٹ کھڑا تھا وہ بولا فوجدار صاحب وہ نہیں آئیں گے وہ جنگ کی تیاری کر رہے ہیں انہیں ڈر ہے کہ مرہٹے ان کے محل پر حملہ کر دیں گے ۔
یہ بات سن کر پورے ہال میں ایک زور دار قہقہ بلند ہوا ہے ایک بولا میں نے سنا ہے کہ چودھری صاحب کو کسی نجومی نے بتایا ہے کہ ان کے محل پر حملہ ہوگا اور ان کی ساری دولت مرہٹے چھین کر لے جائیں گے ۔
دوسرا بولا لیکن میں نے تو سنا ہے چودھری صاحب کو خواب آئی تھی کہ ان کا سارا مال و متاع مرہٹے لوٹ کر لے جا رہے ہیں ۔
ایک اور بولا ۔
ارے یہ بات نہیں وہ حاجی صاحب کا لڑکا تو جنگ کے لیے گیا نہیں اس لئے وہ اب اپنی پشیمانی کو چھپانے کے لیے چوہدری ابرار کا استعمال کر رہا ہے ۔
فوجی دار نے محسوس کیا کہ یہ بات اب ختم ہونے والی نہیں چناچہ جلدی سے بولا
جوگت سیٹھ صاحب میں نے تو سنا ہے کہ آپ نے بھی دو تین سو بندے بھرتی کرلیے ہیں مرہٹوں کے حملے کے ڈر کی وجہ سے ۔
جوگت سیٹھ نظریں چراتا ہوا بولا۔ارے سرکار کیا کریں اگر معظم علی کی بات سچ نکلی تو پھر ۔
ابھی جوگت سیٹھ کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ نوکر نے آکر بتایا ۔سرکار ایک گھڑ سوار سپاہی آیا ہے ۔
وہ بولتا ہے کہ آپ سے ابھی ملنا بہت ضروری ہے ۔
سپاہی کا گھوڑا پسینے سے شرابور تھا ۔فوجدار نے اس سے آتے ہی سوال کیا کیا بات ہے سب خیریت تو ہے ۔
سپاہی بولا سرکار کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے وہ مرہٹے کافی آگے نکل آئے ہیں۔دور کی چوکی والوں نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ مرہٹے مرشد آباد پر حملہ کر دیں گے ۔
فوجدار بولاان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کتنی دور ہیں ۔سپاہی نے کہا سرکار ان کی تعداد کا صحیح علم نہیں لیکن دس ہزار سے شاید اوپر ہو اور وہ کوئی دو تین منزلیں ہی اب دور ہیں ۔
فوجدار سپا ہی سے بولا تم شہر میں منادی کروا دوں اور شاہی محل مرشدآباد میں جا کر چھاؤنی میں جتنے بھی فوجی ہیں سب کو تیاری کا حکم دے دو ۔
اب جو محفل قہقوں سے گونج رہی تھی فوجدار کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔
فوجدار نے بولنا شروع کیا کھانا بالکل تیار ہے آپ لوگ اطمنان سے کھائیں ۔ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ مرہٹے مرشد آباد پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ لوگوں کے پاس جتنے بھی نوکر چاکر اور خود بھی ہتھیاروں سے لیس ہوجائیں اور لڑائی کے لیے بالکل تیار رہیں ۔انشاءاللہ مرہٹوں کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ پوری عمر یاد رکھیں گے اب آپ اطمنان سے کھانا کھائیں مجھے جانا ہوگا اللہ حفیظ ۔
فوجی دار کی یہ بات سن کر محفل میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ۔اور ہر کوئی کھانے کو چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف بھاگا ۔
دوسری جانب معظم علی محلے کی گلیوں میں خاص خاص جگہوں پر پہرے داروں کو تعینات کر رہا تھا اور گلیوں میں مرہٹوں کے گھوڑوں کو روکنے کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہا تھا ۔
جو گھر نسبتا اونچے تھے ان کے اوپر بھی آدمی مورچہ زن ہوکر بیٹھ گئے معظم علی ساتھ ساتھ ان کو تلقین کر رہا تھا تک کوئی بھی آدمی اپنے مورچہ سے نہ ہلے اور جیسے ہی پہلا نقارہ بچتا ہے ۔ایک بھرپور حملہ کیا جائے گا ۔
اب معظم علی کا رخ چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف تھا ۔حویلی کے چاروں طرف پہرے داروں کو کھڑا کرنے کے بعد معظم علی حویلی کی چھتوں پر آدمی نصب کرنے لگا ۔
اب ایک دفعہ سارے آدمی لگانے کے بعد معظم علی کو خیال آیا کہ میں ایک چکر لگا کے دیکھتا ہوں کہ کہیں کوئی کمی تو نہیں رہے گی ۔گلی میں اس کو جگت سیٹھ کا ایک نوکر ملا۔
نوکر بولا سرکار وہ جوگت سیٹ اپ کو بلاتے ہیں۔
اتنے میں جگت سیٹھ بھی نمودار ہوا ۔
بولا دیکھو بیٹا تم میرے گھر آ جاؤ میں اچھی رقم دونگا چاہو تو اپنے گھر والوں کو بھی میرے محل میں لے آؤ
معظم علی بولا سیٹھ صاحب آپ کے پاس ایک اچھا سپاسالار ہے عرفان وہ اپ کو مایوس نہیں کرے گا ہاں البتہ آپ اپنے کرائے کے جو اپنے محافظ بھرتی کئے ہیں ان کو تھوڑی ہمت دکھانے کی ضرورت ہے لیکن یہاں پر میرے محلے والوں کا کوئی بھی محافظ نہیں ہے ۔میں پیسوں سے زیادہ اپنے محلے والوں کو ترجیح دوں گا ۔معظم علی نے گھوڑے کی لگام ایک دفع پھر چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف موڑ دی۔
چوہدری صاحب کے گھر میں جوان کو انعام کے طور پر دو توپیں ملی تھی لوگ نصب کرنے میں مصروف تھے ۔چودھری صاحب نے معظم کی طرف دیکھا اور پوچھا بیٹا دیکھو ان کی یہ جگہ ٹھیک ہے ابرار نے ایک نظر مین دروازے کی طرف دیکھا پھر توپوں کی طرف دیکھا اور بولا چوہدری صاحب یہ بالکل ٹھیک ہیں ۔
چوہدری صاحب بولے ایک نظر اندر دیوان خانے اور بلائیں منزل پر بھی لگا لیں ۔
یہ لوگ اتنا شور کر رہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ میں کسی کا گلا گھونٹ دوں گا ۔
معظم علی جلدی سے اندر کی طرف گیا
نوکر بولا شکر ہے سرکار آپ آ گئے ہیں یہ لوگ اتنا شور کرتے ہیں ہر کوئی اپنے عورتوں اور بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ۔معظم علی نے سب کو خاموش ہونے کا کہا لیکن وہاں پر تو کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لہذا معظمکی بات کا کچھ اثر نہ ہوا اور شور بدستور جاری رہا ۔
معظم علی نے صحن کی طرف بندوق کا رخ کرکے ایک فائر کردیا تب حال میں ہر طرف سناٹا چھا گیا ۔
معظم علی جلدی سے بولنا شروع ہوا ۔
سب لوگ میری بات دھیان سے سنو اگر میری بات پر کسی نے عمل نہ کیا تو میں اس کو اور اس کی فیملی کو اس حویلی سے باہر نکال دوں گا ۔اب جن کی عمر 50 سال سے کم ہے وہ ادھر ہی رک جائیں اور باقی عورتیں اور مرد جن کی عمر 50 سال سے اوپر ہیں وہ بلائیں منزل پر چلے جائیں 50 سال سے کم عمر والے میں ساتھ آجائیں اور رضاکاروں میں شامل ہوجائیں ۔یہ بات یاد رکھیں اگر آپ لوگوں نے اپنا دفاع نہ کیا تو آپ کی عورتیں اور بچے محفوظ نہیں رہیں گے۔چناچہ پوری لگن اور محنت کے ساتھ کام کریں اور میرا ساتھ دیں افراتفری نہ پھیلائیں ۔
یہ کام ختم کرنے کے بعد معظم علی باہر نکلنے لگا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ۔
یہ پروین تھی ۔ معظم علی ایک ساعت کے لیے رک گیا ۔اسے یقین نہیں تھا کہ پروین اسے آواز دی گئ۔ پروین بولی معظم اس بات کا خیال رکھنا کہ اب سارے محلے کی عورتوں کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے ۔معظم علی ہلکا سا مسکرایا اور بولا
لیکن آپ نے تو مجھے چوڑیاں پیش کی تھی میں تو ایک بزدل شخص ہوں میرے خیال میں کم از کم آپ کی یہی سوچ ہے ۔پروین جلدی سے بولی۔
تومیں شاید غلط فہمی ہوئی ہے وہ چوڑیاں میں نے پیش نہیں کی تھی وہ تو جگت سیٹھ کی بیٹی تھی ۔جس نے اپنی چوڑیاں اتار کردیں تھیں مجھے تو کبھی یقین نہیں تھا کہ وہ ایسا عمل کرے گی ۔
اگر میری وجہ سے آپ کے دل کو ٹھیس لگی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں ۔اب معظم اس کی سادگی سے
محظوظ ہورہا تھا ۔
معظم بولا آپ پریشان نہ ہوں ۔اب خدا نے مجھے اپنے بہادر ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے لئے ایک موقع دیا ہے تو میں اپنی جان لگا دوں گا اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔یہ کہہ کر معظم حویلی کے دروازے کی طرف بڑھا وہاں پر موجود لوگوں کو اکٹھا کیا اور سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھا کر دس آدمیوں کو اپنے ساتھ چلنے کا بولا ۔
شعیب بھی ان میں آکر کھڑا ہو گیا جو حتمی طور پر پروین کا منگیتر ہونے والا تھا ۔
معظم علی بولا اب گھر کے اندر چلے جائیں آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپکو تو لڑنا بھی نہیں آتا ۔
شعیب بولا عورتوں کی طرح اندر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ میں بہادروں کی طرح آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑو ۔معظم علی کے پاس اتنا ٹائم نہیں تھا کہ وہ اس کو سمجھاتا بولا ٹھیک ہے اگر آپ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو آپ کو میری بات ماننی ہوگی ۔شعیب بولا آپ یہاں کے سپہ سالار ہیں آپ کے حکم کی کبھی بھی حکم عدولی نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تھوڑی ہی دیر بعد خبر ملی کے مرہٹوں نے باہر والی بستیوں کو لوٹنا شروع کردیا ہے اور ان کی کمان میرحبیب کررہا ہے جو کہ مرشد آباد کا ہی رہائشی تھا اور غداری کرکے مرہٹوں کے ساتھ مل گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرہٹوں کا ایک گروہ چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف بھی بڑھنے لگا لیکن راستے میں اس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔گلی میں لوگ مورچہ زن ہو کر بیٹھے تھے اور لگاتار گولیاں برسا رہے تھے ۔مرہٹوں کی تعداد ڈیڑھ دو سو سے زیادہ نہیں تھی لیکن جلد ہی ان کے ساتھ ایک بڑا گروہ آکر مل گیا جس سے ان کی تعداد 2000 سے 3000 ہوگی ۔ ۔ ۔
مرہٹوں کو یہ بخوبی علم ہو گیا تھا کہ محلے کے سارے گھر خالی ہیں ۔اب انہوں نے چھتوں پر چڑھ کر فائرنگ شروع کر دی فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ مورچے والوں کو اپنی جگہ چھوڑ کر حویلی کے اندر کی طرف بھاگنا پڑا ۔
مرہٹے یہ دیکھ کر آگے حویلی کی طرف بڑھے تو حویلی کے فصیل کے اوپر سے گولیوں کی بارش مرہٹوں کا سامنا کر رہی تھی ۔مرہٹے یہ دیکھ کر ادھر ادھر بکھر گئے ۔معظم علی نے نقارہ بجا نے کا کہا اس کا مطلب تھا کہ بھرپور حملہ کیا جائے ۔چنا چا نقارہ بجنے کی دیر تھی کہ چھتوں کے اوپر سے دیوار کے اوپر سے مورچہ زن ہوئے آدمیوں نے فائرنگ شروع کردی معظم علی حویلی کی چار دیواری کے اندرونی طرف سپاہیوں کو مسلسل ہدایت کر رہا تھا ۔لیکن جب معظم علی جنوب کی طرف پہنچا تو وہاں پر دیکھا کہ آدھی سے زیادہ دیوار گری ہوئی ہے ۔اور مرہٹے بڑی تیزی کے ساتھ حویلی کے اندر آرہے ہیں ۔اب تک تقریبا ڈیڑھ دو سو آدمی اندر آچکا تھا معظم علی نے واپس مڑ کر جلدی سے دوسرا نگارہ بجانے کا حکم دیا ۔
اس نقارے کا مطلب تھا کہ اب پسپائی اختیار کرے اور تھوڑا پیچھے ہٹ جائیں ۔گولیاں اورچیخیں اس قدر سنائی دے رہی تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے ۔سارے سپاہی پیچھے ہٹ کر حویلی کے سامنے صحن کی قطار میں کھڑے ہوگئے اور کچھ چھتوں
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1
پر چڑھ گئے ۔
مرہٹے دھڑا دھڑ اندر کی طرف آ رہے تھے اب کی بار جب معظم نے دیکھا کے مرہٹے توپوں کے بالکل سامنے آگئے ہیں تو معظم علی نے توپوں والے کو توپ چلانے کا حکم دیا آن کی آن میں مرہٹوں کی لاشیں صحن میں پڑی ہوئی تھی اور مرہٹے واپسی کی طرف بھاگے ۔مرہٹوں کی فوج کا ایک افسر یہ کہہ رہا تھا کہ یہ تو ایک قلعہ لگتا ہے ۔مرہٹے دبک کر بیٹھ گئے تھے ۔
فائرنگ رک چکی تھی اب دیوار کے پیچھے سے ایک سفید جھنڈا نمودار ہوا ۔اور ایک آدمی بلند آواز میں بار بار بول رہا تھا ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر کہو تو ایک آدمی آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجے
ادھر سے معظم علی نے جواب دیا کہ صرف ایک آدمی بات کرنے کے لئے آ سکتا ہے ۔
کچھ دیر بعد ایک آدمی جھنڈا لیتے ہوئے باہر نکلا اور حویلی کی طرف بڑھنے لگا
یہ بھی کوئی مرہٹوں کی فوج کا افسر لگ رہا تھا ۔
مرہٹہ افسر قریب آ کر بولا کے ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ آپ نے اتنی اچھی تیاری کی ہے لیکن آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے شکست تسلیم کر لی ہے ۔
البتہ میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں مجھے ایک لاکھ روپے دے دوں تو ہم یہاں سے خوشی خوشی چلے جائیں گے اور اپنا نقصان جو ہوا ہے بھول جائیں گے ۔
معظم علی بولا کے ہمارے پاس دینے کے لئے ہماری بندوقوں کی گولیاں ہیں ۔ ۔ ۔
مرہٹہ افسر بولا تم یقینا کسی غلط فہمی میں ہو ہماری تعداد ابھی ادھر ادھر بکھری ہوئی ہے ہم ایک بار پھر بھرپور حملہ کریں گے اکٹھے ہوکر ۔
معظم علی بولا اور تم بھی یہ بات بول رہے ہوں کہ جلد ہی ہماری فوج یہاں پہنچ جائے گی ۔
مرہٹہ افسر غصے سے بولا ہاں پہنچ جائے گی لیکن ان کو یہاں پر تمہاری لاشیں دفنانے کے سوا کوئی کام نہ ہو گا ہم تمہاری عورتوں کو اٹھا کر لے جائیں گے اور بچوں کو ذبح کردیں گے ۔ ۔ ۔ یہ ایک نفسیاتی دھمکی تھی جس کو معظم علی نے ہوا میں اڑا دیا معظم علی بولا دیکھتے ہیں پھر کس کی لاشیں گرتی ہیں ۔
مرہٹے افسر نے اپنا گھوڑا موڑا اور جنڈا پھینک کر اپنی فوج کے ساتھ جاملا اور حویلی سے باہر نکل گئے ۔جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پچھلی پوسٹ کے لیے یہاں کلک کریں
0 Comments