Aslami tehzeeb aur aaj ka islam
وہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے ۔اکثر ایسا ہوتا کہ
وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیے لکھتے کہ اس مریض
سے پیسے نہیں لینے ۔اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لیے؟ تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جس کا نام صدیق ہو ، عمر ہو ، عثمان ہو، علی ہو یا خدیجہ ،عائشہ اور فاطمہ ہو تو میں اس سے پیسے لوں۔ ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدین ، امہات المومنین اور بنات رسولﷺ کے ہم نام لوگوں سے پیسے نہ لیے ۔ یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھاAslami tehzeeb aur aaj ka islam۔
امام احمدبن حنبل رضي الله تعالى عنه نہر پر وضو فرما رہے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور امام صاحب سے دوسى طرف جا کر بیٹھ گیا۔پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔مجھے شرم آئی کہ استاد میرے استعمال شدہ پانی سے وضوکرے ۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا حضور؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) صحابی نے کہا رسول اللہﷺ ہی بڑے ہیں البتہ میں دنیا میں کچھ عرصہ پہلے آگیا
۔Aslami tehzeeb aur aaj ka islam
مجدد الف ثانی (رحمة الله تعالى عليه)رات کو سوتے ہوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہوں اور بیت الخلا جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے ۔
ادب کے یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہاہے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ہوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یا د تھا کہ جوبڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیا ر نہیں کرتاوہ ہم میں سے نہیں۔
یہ بھی پڑھیں
میرے نبی کی محبت امت کے لئے ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے ۔ اس کے صدقے اللہ انہیں نوازتا بھی تھا۔ اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کاادب کرے۔
۔Aslami tehzeeb aur aaj ka islam
یک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ہے یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔
اس (دوست) نے کہا عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ہے مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ہے،
*اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے،*
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا ۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوئے اور انہی کی دعا کا صدقہ ہے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ہے۔
والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہ کے زمانے سے چلا آر ہا تھا۔ حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کرنے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی خود ہی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے ۔ وہ صحابی شرمندہ ہوتے اور کہتے کہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں،آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کام کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔
کتنی ہی مدت ہمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ہے) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ہوتا ہے، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے جبکہ اب شاگر د کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ہے ۔
مسلمانوں کی تہذیب میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہا ں چھوٹا ، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ہی رہتا تھا۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ جارہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ہوجاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کااحترام نہ کروں۔
اپنی پسند کے آرٹیکل پڑھیں
اسلامی تہذیب کمزور ہوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔اب برابری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ہوگئے اور شاگرد استاد کے برابر ۔جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔
اسلام اس مساوات کا ہر گز قائل نہیں کہ جس میں گھوڑا اور گدھا برابر ہو جائیں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور نعوذباللہ ابو جہل برابر۔اسلام کا یہ کہنا ہے کہ لاکھ زمانہ بدلے مگر ابو بکر ، ابو بکر رہے گا اور ابو جہل ، ابو جہل ۔ گھوڑا ، گھوڑ ا رہے گا اور گدھا، گدھا۔ اسی طرح استاد ، استاد رہے گا اور شاگر د ، شاگر د ۔والد ، والد رہے گا اور بیٹا ، بیٹا۔سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ہے اُن کے اُن کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ہی تہذیب کا حسن ہے ۔
مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار اسی راستے سے ہوا ہے جبکہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سب سے بڑا وار سمجھ رہے ہیں۔واقعی عریانی اور فحاشی کے برُے ہونے میں کوئی شک نہیں اور اس کا برا ہونا سب کو سمجھ بھی آتا ہے اس لیے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ہے جبکہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اہمیت کا سمجھ آنا مشکل ہے اس لیے یہ قدر تیزی سے رو بہ زوال ہے اور معاشرے کی توڑ پھوڑ بھی اسی تیزی سے جاری ہے
یہ بھی پڑھیں
0 Comments