معظم علی نے حیران ہو کر خطیب صاحب کی طرف دیکھا ۔خطیب صاحب بولے ۔
برخوردار ۔دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی فکر ہونی چاہئے ۔
جی خطیب صاحب معظم بولا ۔
اور ساتھ ہی کلمیں سنانے شروع کردیے ۔خطیب صاحب بولے یہ سب کہاں سے سیکھا ۔اب کی بار معظم کی بجا ے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صفدر بولا خطیب صاحب ۔ جو آپ ہمیں پڑھاتے ہیں یہ ہم سے روز پوچھتا ہے ۔اور اس کے نمبر بھی مجھ سے اچھے آیے ہیں ۔خطیب صاحب
نے کہا تم کس کے بچے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معظم بولا میں حاجی عبدالرزاق کا بیٹا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خطیب صاحب معظم سے بہت متاثر ہوے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہا کہ بیٹا تم روز یہاں آ کر پڑھ سکتے ہو ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔
معظم علی بولا بہت شکریہ خطیب صاحب ۔ اتنی دیر میں چوہدری ابرار احمد بھی آ گیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چوہدری ابرار احمد بولے یہ آپ نے سہی کیا ۔۔۔۔۔
اگر صفدر شہباز اور معظم علی اکھٹے پڑھے تو بہت اچھا ہو گا ۔
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1
اب تلوار بازی اور نیزہ بازی کا وقت ہو گیا تھا
صفدر اور شہباز کے بعد چوہدری ابرار احمد نے کہا بیٹا معظم تم بھی تلوار چلاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی چچا جان اور معظم علی نے تلوار لے کر چلانی شروع کی تو سب آکھیں بند کرنا بھول گئے ۔معظم علی تھوڑی دیر کے بعد رک گیا
تو خطیب صاحب بولے بیٹا تلوار چلانا کہاں سے سیکھا ۔معظم علی بولا میں نے تلوار اور نیزہ بازی ابو جان سے سیکھی ہے اب کی بار چوہدری ابرار بولا ۔تو یقینن تمہی پستول چلانا بھی آتا ہو گا ۔جی چچا جی آتا ہے ۔
تو چلو پھر فائرنگ پائنٹ پر چلتے ہیں ۔جیسے ہی یہ ۔سب لوگ فائرنگ پائنٹ پر پہنچ تو نوکر نے میز پر دو پستول رکھ دیے ۔صفدر جلدی سے پستول اٹھا کر بولا بابا جان پہلے میں نشانہ لگاؤ گا ۔ٹھیک ہے بیٹا صفدر نے پوزیشن لی اور فائر کر دیا صفدر نے تین گولیاں فائر کی تھیں جو کے گول دائرے کے بلکل پاس جا کر لگی تھیں ۔صفدر نے مسکرا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا تو چوہدری ابرار نے کہا شاباش ۔اب شہباز نے چھے گولیاں فائر کی جو چھے کی چھے گول دائرے کے اندر لگیں ۔شہباز تھوڑا سا مسکرا کر پیچھے ہٹ گیا ۔اور پاس کھڑا نوکر جلدی سے پستول میں گولیاں بھرنے لگا ۔خطیب صاحب بولے بھئی شہباز نے تو کمال کر دیا ۔چلو برخردار اب تمہارا نشانہ دیکھتے ہیں ۔معظم نے پستول میز سے اٹھا لیا ۔تو چوہدری ابرار جلدی سے بولے دیہان بیٹا کسی کو زخمی نہ کر دینا ۔معظم بولا آپ فکر نہ کرے میں اس سے پہلے بھی پستول چلا چکا ہوں ۔اب کی بار معظم علی نے پوزیشن لی اور چار فائر کیے ۔جب گول دائرے کی طرف سب نے دیکھا تو سب حیران رہ گئے گولیاں دائرے کے اندر ایک ہی سوراخ سے نکل گئی تھیں ۔چوہدری ابرار بے اختیار بولے شاباش ۔تمہارا ناشنا تو بہت اچھا ہے
برخوردار ۔دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی فکر ہونی چاہئے ۔
جی خطیب صاحب معظم بولا ۔
اور ساتھ ہی کلمیں سنانے شروع کردیے ۔خطیب صاحب بولے یہ سب کہاں سے سیکھا ۔اب کی بار معظم کی بجا ے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صفدر بولا خطیب صاحب ۔ جو آپ ہمیں پڑھاتے ہیں یہ ہم سے روز پوچھتا ہے ۔اور اس کے نمبر بھی مجھ سے اچھے آیے ہیں ۔خطیب صاحب
نے کہا تم کس کے بچے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معظم بولا میں حاجی عبدالرزاق کا بیٹا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خطیب صاحب معظم سے بہت متاثر ہوے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہا کہ بیٹا تم روز یہاں آ کر پڑھ سکتے ہو ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔
معظم علی بولا بہت شکریہ خطیب صاحب ۔ اتنی دیر میں چوہدری ابرار احمد بھی آ گیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چوہدری ابرار احمد بولے یہ آپ نے سہی کیا ۔۔۔۔۔
اگر صفدر شہباز اور معظم علی اکھٹے پڑھے تو بہت اچھا ہو گا ۔
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1
اب تلوار بازی اور نیزہ بازی کا وقت ہو گیا تھا
صفدر اور شہباز کے بعد چوہدری ابرار احمد نے کہا بیٹا معظم تم بھی تلوار چلاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی چچا جان اور معظم علی نے تلوار لے کر چلانی شروع کی تو سب آکھیں بند کرنا بھول گئے ۔معظم علی تھوڑی دیر کے بعد رک گیا
تو خطیب صاحب بولے بیٹا تلوار چلانا کہاں سے سیکھا ۔معظم علی بولا میں نے تلوار اور نیزہ بازی ابو جان سے سیکھی ہے اب کی بار چوہدری ابرار بولا ۔تو یقینن تمہی پستول چلانا بھی آتا ہو گا ۔جی چچا جی آتا ہے ۔
تو چلو پھر فائرنگ پائنٹ پر چلتے ہیں ۔جیسے ہی یہ ۔سب لوگ فائرنگ پائنٹ پر پہنچ تو نوکر نے میز پر دو پستول رکھ دیے ۔صفدر جلدی سے پستول اٹھا کر بولا بابا جان پہلے میں نشانہ لگاؤ گا ۔ٹھیک ہے بیٹا صفدر نے پوزیشن لی اور فائر کر دیا صفدر نے تین گولیاں فائر کی تھیں جو کے گول دائرے کے بلکل پاس جا کر لگی تھیں ۔صفدر نے مسکرا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا تو چوہدری ابرار نے کہا شاباش ۔اب شہباز نے چھے گولیاں فائر کی جو چھے کی چھے گول دائرے کے اندر لگیں ۔شہباز تھوڑا سا مسکرا کر پیچھے ہٹ گیا ۔اور پاس کھڑا نوکر جلدی سے پستول میں گولیاں بھرنے لگا ۔خطیب صاحب بولے بھئی شہباز نے تو کمال کر دیا ۔چلو برخردار اب تمہارا نشانہ دیکھتے ہیں ۔معظم نے پستول میز سے اٹھا لیا ۔تو چوہدری ابرار جلدی سے بولے دیہان بیٹا کسی کو زخمی نہ کر دینا ۔معظم بولا آپ فکر نہ کرے میں اس سے پہلے بھی پستول چلا چکا ہوں ۔اب کی بار معظم علی نے پوزیشن لی اور چار فائر کیے ۔جب گول دائرے کی طرف سب نے دیکھا تو سب حیران رہ گئے گولیاں دائرے کے اندر ایک ہی سوراخ سے نکل گئی تھیں ۔چوہدری ابرار بے اختیار بولے شاباش ۔تمہارا ناشنا تو بہت اچھا ہے
پستول اٹھا کر معظم علی کو دے دیا ۔یہ تمہارا انعام ہے جب تم فوج میں بھرتی ہو جاؤ گے تو میں تمہیں اپنے اسلے خانے سے فرانس کی ایک بہترین بندوق دو گا ۔معظم علی نے پستول لے کر شکریہ ادا کیا ۔اتنے میں ایک نوکر آیا اور بولا ۔جناب کھانا لگا دوں ۔چوہدری ابرار بولا کھانا ہم نماز پڑ کر کھاتے ہیں چلے خطیب صاحب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب تو روز معظم علی چوہدری ابرار کے گھر آنے لگا تھا صفدر اور شہباز سے معظم کی دوستی بہت زیادہ ہو گئی تھی ۔چوہدری ابرار بھی معظم سے کافی مرغوب ہوا تھا کبھی کھبی وہ معظم کو اپنے پاس بلا کر اس سے باتیں کرتا تو معظم علی کی باتیں سن کر چوہدری ابرار حیران ہو جاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دن گزرتے گئے اور ایک دن شہباز فوج میں 100 کمان داروں کا افسر بھرتی ہو گیا صفدر اور معظم بھی اپنی اپنی تعلیم مکمل کرنے والے تھے معظم علی پورے مرشدا باد میں مشہور تھا کہ اس سے اچھا نہ کوئی تلوار باز تھا نہ ہی کوئی تیر انداز ۔گڑ سواری میں بھی وہ کمال رکھتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے
A Hero of the mazzam Ali Bengal Click here for the previous post
0 Comments