ایک دن موسم کافی حسین تھا سورج طلوع ہونے والا تھا معظم اور صفدر گھوڑوں پر زین ڈال رہے تھے کے نوکر پاس آ کر بولا ۔صفدر صاحب آپ کو چوہدری صاحب بولا رہے ہیں ۔صفدر نے معظم کی جانب دیکھ کر کہا اچھا چلو میں آتا ہوں چوہدری ابرار صحن میں کرسی پر بیٹھا سورج کی آمد کا انتظار کر رہا تھا ۔صحن میں کوئی لگ بھگ دس بارہ درخت ایک طرف.۔
تو دس بارہ دیوار کی دوسری جانب لگے ہوئے تھے صحن کی چار دیواری کے باہر بھی مختلف قسم کے درخت تھے جو اس قلعے نما گھر کو سر سبز و شاداب رکھتے تھے ساتھ ہی گھوڑوں کا اصطبل تھا جس میں کوئی چالیس پچاس کے قریب مختلف نسل کے گھوڑے باندے ھوے تھے گھر کے پیچھے ایک کافی بڑا کمرہ تعمیر تھا جو سٹور روم کے طور پر استمال ہوتا تھا ۔لیکن اس کے اندر ایک اور کمرہ بھی تھا ۔یا یوں کہ سکتے ہیں کے یہ ایک طرح کا اسلحہ خانہ تھا ۔
اس میں کوئی ڈیڑھ سو کے قریب بندوق مجود تھیں اور ساتھ ہی گولیوں کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ موجود تھا ۔
صفدر اپنے باپ کے ساتھ چلتے ہوئے کافی دور آ گیا تھا ۔چوہدری ابرار آج کافی خوش لگ رہا تھا کیونکے اس کا بڑا بیٹا شہباز چھٹی لے کر پہلی بار گھر آ رہا تھا ۔چوہدری ابرار بولا دیکھو بیٹا۔ ۔ شہباز۔:۔"
ملازم ہونے کے بعد پہلی بار گھر آ رہا ہے میرا دل ہے کہ ایک چھوٹی سی ملن پارٹی رکھ لے ۔تم ایسا کرو کہ ایک لسٹ بنا لو مہمانوں کی ۔جی بابا جان میں ابھی بنا لیتا ہوں ۔چوہدری ابرار بولا اور ہاں ۔اس بار معظم علی کے گھر والو کو بھی شامل کر لینا اس لسٹ میں ۔جی بابا جان
بڑھا ہی پیارا نوجوان ہے ۔معظم میرا دل کہتا ہے کے یہ لڑکا بہت ترقی کرے گا ۔صفدر بولا جی بابا جان معظم علی اچھا دوست ہے ۔اتنے میں دور سے گرد اڑتی ہوئی نظر آنے لگی کوئی سر پٹ گھوڑا دوڑتا ہوا آ رہا تھا ۔صفدر اور ابرار رک کر دیکھنے لگے ۔گھوڑا اب کافی قریب آ گیا تھا ۔یہ معظم علی تھا اس نے صفدر اور ابرار کے پاس آ کر گھوڑا روک لیا اسلام علیکم چچا جی معظم بولا ۔چوہدری ابرار بولا وعلیکم اسلام ۔اچھا ہوا تم آ گئے ۔شہباز گھر آ رہا ہے اور ہم نے چھوٹی سی پارٹی رکھی ہے اس کے آنے کی خوشی میں ۔تم اپنے گھر والوں کے ساتھ آنا ضرور ۔معظم بولا شہباز آ رہا ہے۔ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے ۔لیکن میں گھر والوں کے ساتھ شاید نہ آ پاؤں ۔میں کچھ نہیں جانتا ۔چوہدری ابرار بولا۔ تم گھر والوں کے ساتھ آنا ے معظم علی نے پریشان ہو کر دیکھا پھرکچھ دیر بعد بولا ٹھیک ہے چچا جی جیسے آپ کی مرضی ۔
جمعہ کو چوہدری ابرار کے گھر کافی گہما گہمی نظر آ رہی تھی صبح سے ہی مہمانوں کی آمد کاسلسلہ جاری تھا صحن سے باہر کافی بڑے بڑ ے شامیانے لگے ہوئے تھے جہاں پر خوب صورت قالین اور ٹیبلوں پر مشروب اور کھانے پینے کی دیگر اشیا رکھی ہوئی تھیں ۔گھر کے اندر عورتوں کا ملن ملاپ جاری تھا ۔شہباز سے ہر کوئی مل رہا تھا ۔معظم علی بھی شہباز سے مل کر اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔اس محفل میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اس بات کا اندازہ اس لیے بھی ہوتا تھا کہ علی وردی خان ۔جو بنگال کا حکمران تھا ۔نے خصوصی طور پر اپنا خاص آدمی خصوصی طور پر کئی قسم کے تحفے دے کر بیجا تھا ۔اور جس کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں تھا وہ کم از کم بہت امیر لوگ تھے ۔
پروین آج بہت خوب صورت لگ رہی تھی اس نے آج ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اس کی سہیلیاں اس کے ساتھ ہنسی مزہ کر رہی تھیں ۔پروین ہستی ہوئی اور بھی اچھی لگ رہی تھی ۔لال گلابی گال سفید دانت ؛کالی آنکھیں اور چہرے پر ایک دل کش معصومیت تھی ۔آمنہ معظم علی کی والدہ کافی دیر سے پروین کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ویسے بھی اس محفل میں اس کا کوئی واقف نہیں تھا ۔سب انچے گھر کے لوگ تھے لیکن پروین اور اس کی والدہ سلمہ اس کو جانتی تھیں ۔پروین کی نظر آمنہ پر پڑی تو اس کے پاس چلی آئی ۔آمنہ نے سر پر پیار دیا اور بولی ۔ماشاللہ آج بہت خوب صورت لگ رہی ہو ۔اللّه نظر بد سے بچا یئے ۔پروین نے شرما کر نظریں نیچے کر لیں ۔معظم کیسا ہے چچی جان پروین بولی ۔معظم ٹھیک ہے بیٹی آج کل بس جنگ والی کتابیں پڑتا رہتا ہے ۔جی چچی جی پروین نے کہا اور کوئی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بتا دینا ۔جیتی رھو بیٹی اللّه تمہیں خوش رکھے ۔
شہباز اپنی مرہٹوں کے ساتھ لڑائی کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کس طرح مرہٹوں نے کلکتہ سے کوئی 200 میل دور تاج پور قصبے پر حملہ کر دیا تھا ۔لیکن ہمارے جوابی حملے نے ان کے قدم اکھاڑ دیے اور ہم نے انھیں بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔اب علی وردی خان صاحب کا خیال ہے کے مرہٹے بعض نہیں آئے گے وہ حملے کرتے رہے گے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
0 Comments