شہباز نے جب مرہٹوں کے بارے میں بات کی تو سب بڑے دیھاں سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب مرہٹوں نے پورے ہندوستان میں کہرام مچا رکھا تھا ۔ان میں زیادہ تعداد سکھوں کی تھی ۔ہندو بھی شامل تھے ۔یہ کسی بھی شہر ؛گاؤں یا قصبے پر حملہ کر کے قبضہ کرتے اور کئی دن تک لوٹ مار کرتے رہتے ۔ان کی زیادہ توجہ مال و دولت لوٹنے اور نوجوان لڑکیوں پر ہوتی ۔جب یہ دیکھتے کے اب یہاں کچھ نہیں بچا تو اگلے کسی شہر یا گاؤں پر حملہ کر دیتے ۔زیادہ تر گاؤں کے لوگ ان کو فدیہ دے کر ان سے جان خلاصی کرتے ۔لیکن اس کے بعد بھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی تھی کہ اب مرھتے حملہ نہیں کرے گے ۔کئی بار یہ فدیہ لے کر بھی حملہ کر دیتے تھے اور اتنی بےدردی سے شہر کو لوٹے تھے کے لوگ فاقوں پر آ جاتے تھے ۔
روز با روز مرہٹوں کی تعداد اور حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔
علی وردی خان کو جو کہ بنگال کا حکمران تھا اس وقت دو سب سے بڑے خطرے نظر آ رہے تھے ایک مڑھاتے اور دوسرا ایسٹ انڈیا کمپنی ۔
ایسٹ انڈیا کمپنی بڑی تیزی سے ہندوستان میں مقبول ہو رہی تھی ۔اور تجارت کے ساتھ ساتھ اپنی فوجی قوت میں بھی اضافہ کر رہی تھی ۔اور وزیروں مشیروں کو پیسے زمیں اور طرح طرح کے لالچ دے کر اپنے ساتھ کر رہی تھی ۔علی وردی خان اب تک مصحلت کے ساتھ اپنی حکمرانی قائم رکھے ہوئے تھا ۔
شہباز اس محفل میں سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔کوئی شام کے قریب یہ محفل اختتام پذیر ہوئی ۔معظم چوہدری ابرار کے گھر سے مسجد کی طرف چل پڑا ۔آج کل معظم کا زیادہ وقت امام صاحب کے ساتھ ہی گزرتا تھا ۔امام مسجد رشید تھا بھی بہت دور اندیش ۔ معظم علی نے امام صاحب کو دیکھتے ہی سلام کیا امام صاحب کے ساتھ ہی معظم کا باپ بھی موجود تھا ۔امام صاحب بولے بیٹا بیٹھ جاؤ ۔دیکھو بیٹا تمہارا باپ چاہتا ہے کہ تم فوج میں بھرتی ہو جاؤ اور کہتا بھی ٹھیک ہے اب جب تمہاری پڑھائی مکمل ہونے والی ہے تو تمہیں اس بارے میں سوچنا چاہئے ۔معظم علی کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن پھر خاموش ہو گیا ۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا ابھی تو میںنے پڑھائی مکمل نہیں کی اور اس بارے میں سوچا بھی نہیں لیکن جلد میں کوئی فیصلہ کر لو گا ۔امام صاحب بولے تو چلیے پھر نماز پڑھتے ہیں ۔
دن پر لگا کر اڑھ رہے تھے صفدر بھی فوج میں شامل ہو گیا تھا ۔اور اب سب معظم کو بھی فوج میں شامل ہونے کا کہ رہے تھے ۔ایک صبح معظم گھر میں کھانا کھا رہا تھا ۔تبھی اس کا والد بولا بیٹا دیکھو میری خواہش ہے کہ تم فوج میں شامل ہو جاؤ ۔ویسے بھی اب تمہاری عمر کے تمام نوجوان کسی نہ کسی کام داندے میں لگ گیے ہیں ۔آج پہلی بار معظم علی بولا بابا جان مجھے فوج میں شامل نہیں ہونا ۔کیوں فوج میں کیا خرابی ہے حاجی عبدالرزاق بولا ۔بس بابا جان آپ وجہ نہ پوچھیں ۔دیکھ لو آمنہ معظم کے والد نے شکایت کرتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1
آمنہ بولی آپ بھی بس میرے بیٹے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔دیکھنا خدا اسے کوئی بہت بڑا عہدہ دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دے گا عہدہ ماں کی گھود میں بیٹھ کر کوئی عہدہ نہیں ملتا حاجی عبدالرزاق نے چادر کندھے پر رکھی اور باہر نکل گیا اب وہ سیدھا امام صاحب کے پاس گیا ۔امام صاحب مجھے معظم سے یہ امید نہیں تھی ۔کہتا ہے کہ اسے فوج میں بھرتی نہیں ہونا مجھے دیکھے میں 20سال 1000 کمان دارو ں کا افسر رہا ہوں ۔علی وردی خان کے محافظ دستے کی کمان میرے ہاتھ میں تھی ۔اور آج یہ کہتا ہے کے میں فوج میں نہیں جاؤں گا ۔امام صاحب بولے آپ بلا وجہ معظم سے ناراض ہو رہے ہیں ۔وہ ایک بہادر نوجوان ہے ۔نشانے بازی تیر اندازی تلوار چلانا سب کام بہت با خوبی جانتا ہے ۔اور اب تو مینے سنا ہے کہ وہ تیر کر دریا بھی عبور کر لیتا ہے ۔وہ کئی لڑکوں میں بہت بہتر ہے ۔حاجی عبدالرزاق پھر بولا لیکن امام صاحب ان ساری خوبیوں کا کیا فائدہ جب وہ کہتا ہے جی اسے سپاہی کی زندگی پسند نہیں ۔امام صاحب بولے ضروری نہیں کے ہر کام فوج میں شامل ہونے کے لیے سیکھا جائے
مجھے تو اس میں ایک عالم کے اوصاف بھی نظر آتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے وہ قلم سے یا اپنی زبان کی تاثیر سے لوگوں کا بھلا کر سکے ۔ہو سکتا ہے کہ اس کی قسمت میں ایک فوجی افسر کی بجاۓ کسی صوبے کا قاضی ؛ یا پھر صوبے دار بننا لکھا ہو ۔میں تو معظم علی سے مایوس نہیں ہو وہ کوئی بڑا کام کرے گا انشااللہ ۔امام صاحب کی باتیں سن کر معظم کے والد کو کچھ ڈارس بڑھی تھی اور اب وہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ۔
شہباز کے گھر آنے کی خوشی میں جو محفل رکھی تھی اس میں ایک بہت بڑے جاگیر دار کی فیملی بھی آئی تھی ان کا ایک بیٹا برطانیہ میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔
شعیب علی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلمہ چوہدری ابرار کو اس بارے میں بتا رہی تھی کہ وہ پروین کو دیکھ کر بہت خوش ہوے تھے ۔میرے خیال میں پروین کے لیے بات چیت کرنی چاہئے ۔چوہدری ابرار بولا پروین ابھی بچی ہے ۔لیکن سلمہ ہار مانے کو تیار نہیں تھی میرے خیال میں رشتہ اچھا ہے ۔آپ سوچ لے ۔
سلمہ اور چوہدری ابرار کو پتا نہیں تھا کہ ان کی گفتگو پروین اور شہباز بھی سن رہے تھے ۔یہ سب سنے کے باد ۔پروین نے اپنے بھائی شہباز کی جانب دیکھا اور بھائی جان بول کر اس سے لپٹ گئی ۔شہباز نے پیار سے پروین کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔
شرمو حیا کی ساری لالی پروین کے چہرے پر نظر آ رہی تھی ۔شرم سے کان اور گال لال ہو گئے تھے ۔اور ساتھ ہی پروین نے ہلکی ہلکی سسکیا ں لینا شرو ع کر دے اب کی بار باپ کا دل پگھل گیا ۔اور جلدی سے اٹھ کر پروین کے پاس جا کر سر پر پیار کرنے لگا
یہ بات پروین کے لیے بہت بڑی پریشانی لے کر آئی تھی ۔اب اس کو بھی محسوس ہو رہا تھا کے ایک نہ ایک دن اسے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
3معظم علی بنگال کا ایک ہیرو A Hero of the mazzam Ali Bengal
آمنہ بولی آپ بھی بس میرے بیٹے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔دیکھنا خدا اسے کوئی بہت بڑا عہدہ دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دے گا عہدہ ماں کی گھود میں بیٹھ کر کوئی عہدہ نہیں ملتا حاجی عبدالرزاق نے چادر کندھے پر رکھی اور باہر نکل گیا اب وہ سیدھا امام صاحب کے پاس گیا ۔امام صاحب مجھے معظم سے یہ امید نہیں تھی ۔کہتا ہے کہ اسے فوج میں بھرتی نہیں ہونا مجھے دیکھے میں 20سال 1000 کمان دارو ں کا افسر رہا ہوں ۔علی وردی خان کے محافظ دستے کی کمان میرے ہاتھ میں تھی ۔اور آج یہ کہتا ہے کے میں فوج میں نہیں جاؤں گا ۔امام صاحب بولے آپ بلا وجہ معظم سے ناراض ہو رہے ہیں ۔وہ ایک بہادر نوجوان ہے ۔نشانے بازی تیر اندازی تلوار چلانا سب کام بہت با خوبی جانتا ہے ۔اور اب تو مینے سنا ہے کہ وہ تیر کر دریا بھی عبور کر لیتا ہے ۔وہ کئی لڑکوں میں بہت بہتر ہے ۔حاجی عبدالرزاق پھر بولا لیکن امام صاحب ان ساری خوبیوں کا کیا فائدہ جب وہ کہتا ہے جی اسے سپاہی کی زندگی پسند نہیں ۔امام صاحب بولے ضروری نہیں کے ہر کام فوج میں شامل ہونے کے لیے سیکھا جائے
مجھے تو اس میں ایک عالم کے اوصاف بھی نظر آتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے وہ قلم سے یا اپنی زبان کی تاثیر سے لوگوں کا بھلا کر سکے ۔ہو سکتا ہے کہ اس کی قسمت میں ایک فوجی افسر کی بجاۓ کسی صوبے کا قاضی ؛ یا پھر صوبے دار بننا لکھا ہو ۔میں تو معظم علی سے مایوس نہیں ہو وہ کوئی بڑا کام کرے گا انشااللہ ۔امام صاحب کی باتیں سن کر معظم کے والد کو کچھ ڈارس بڑھی تھی اور اب وہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا ۔
شہباز کے گھر آنے کی خوشی میں جو محفل رکھی تھی اس میں ایک بہت بڑے جاگیر دار کی فیملی بھی آئی تھی ان کا ایک بیٹا برطانیہ میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔
شعیب علی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلمہ چوہدری ابرار کو اس بارے میں بتا رہی تھی کہ وہ پروین کو دیکھ کر بہت خوش ہوے تھے ۔میرے خیال میں پروین کے لیے بات چیت کرنی چاہئے ۔چوہدری ابرار بولا پروین ابھی بچی ہے ۔لیکن سلمہ ہار مانے کو تیار نہیں تھی میرے خیال میں رشتہ اچھا ہے ۔آپ سوچ لے ۔
سلمہ اور چوہدری ابرار کو پتا نہیں تھا کہ ان کی گفتگو پروین اور شہباز بھی سن رہے تھے ۔یہ سب سنے کے باد ۔پروین نے اپنے بھائی شہباز کی جانب دیکھا اور بھائی جان بول کر اس سے لپٹ گئی ۔شہباز نے پیار سے پروین کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔
شرمو حیا کی ساری لالی پروین کے چہرے پر نظر آ رہی تھی ۔شرم سے کان اور گال لال ہو گئے تھے ۔اور ساتھ ہی پروین نے ہلکی ہلکی سسکیا ں لینا شرو ع کر دے اب کی بار باپ کا دل پگھل گیا ۔اور جلدی سے اٹھ کر پروین کے پاس جا کر سر پر پیار کرنے لگا
یہ بات پروین کے لیے بہت بڑی پریشانی لے کر آئی تھی ۔اب اس کو بھی محسوس ہو رہا تھا کے ایک نہ ایک دن اسے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
0 Comments