نوکر اندر آ کر بولا جناب کھانا تیار ہے ۔
چوہدری ابرار نے کہا چلے تھانیدار صاحب کھانا کھاتے ہیں ۔کھانے کے دوران ۔تھانیدار بولا دیکھو معظم اگر تمہیں فوج میں جانا اچھا نہیں لگتا تو میں ایس پی صاحب سے پولیس میں تمہارے لیے بات کر سکتا ہوں اور وہ بھی خوشی سے مان جائے گے ۔
معظم بولا جی شکریہ تھانیدار صاحب لیکن میں نے ابھی مستقبل کے بارے میں سوچا نہیں ہے ۔
تھانیدار بولا جیسے تمہاری مرضی لیکن پولیس آپ جیسے نوجوان کے لیے اچھی جاب ہے
معظم علی نے ایک بار پھر شکریہ ادا کیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا کھانے کے باد تھانیدار تو چلا گیا لیکن معظم کو چوہدری صاحب نے روک لیا چوہدری صاحب کو علی وردی خان سے کافی الفت تھی اور معظم علی کی بات سن کر وہ پریشان ہو گئے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان کو شاید پتا نہیں تھا کہ ان کی پریشانی اب مزید بڑھنے والی ہے ۔
چوہدری ابرار بولا ۔دیکھو معظم میں نہیں جانتا کے تمہارے ذھن میں کیا چل رہا ہے لیکن ایک ایسے وقت میں کے جب ہماری قوم کو چاروں طرف سے خطرات نے گھیرا ہو اور تم جیسے نوجوان اس طرح کی باتیں کریں گے تو کیا ہوگا اس ملک کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معظم علی بولا ۔مجھے جو صحیح لگا میں نے وہ بولا اگر میری بات سے آپ کو گنج رنج پہنچتا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں ۔لیکن یہ بات سچ ہے کہ علی وردی تو کیاسپاہیوں کو بھی پتا نہیں مسلمانوں کا دوست کون ہے اور دشمن کون ۔ایک وقت میں تو وہ مرہٹوں اور جاٹوں سے جنگ کرتے ہیں اور اگلے دن صلح کر لیتے ہیں ۔ چوہدری ابرار بولا لیکن انگریزوں کے بارے میں علی وردی خان کے خیالات بڑے واضع ہیں وہ انگریزوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور پوری قوم سمجھتی ہے اور تم بھی سمجھتے ہو میں بھی سمجھتا ہوں ۔
معظم علی بولا لیکن یہ سچ نہیں ہے دہلی میں مسلمانوں کے پرچم سرنگوں ہو چکے ہیں اور جس سلطنت کی مرکزی قوت کمزور ہو وہاں کے دیگر حکمران کبھی بھی زیادہ دیر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتے ۔چوہدری ابرار بولا تو کیا یہ سچ نہیں ہےآج تم جو آزادی کا سانس لے رہے ہو وہ علی وردی خان کی حکمرانی کی وجہ سے ہے ۔
معظم علی بولا وہ ایک بہتر سیاستدان اور مصحلت پسند آدمی ہیں اگر اس نے اپنی چلاکی یا ہوشیاری سے ۔حکمرانی حاصل کر لی ہے تو ہم پر کوئی احسان نہیں کیا ۔اس سے تو اچھا تھا جو سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیتا اور اپنی مرضی قوت کو ناقابل تسخیر بناتا مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑا کرتا ہر کوئی اس کے سامنے جواب دہ ہوتا ایک بڑی فوج کے سامنے کوئی انگریز ہندو جاٹ یا مرہٹے مقابلہ نہ کر سکتے لیکن اس کے مقابلے میں ۔اب ہم چھوٹی چھوٹی ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ ہم زیادہ دیر ایسٹ انڈیا کمپنی کو یا جاٹوں کو مرہٹوں کو روک پائیں گے ۔
جو کچھ دلی میں ہوا وہ سب کچھ انکے اپنی غلطیوں کا ازالہ ہے چوہدری ابرار بولا جب آپ اورنگزیب عالمگیر جیسے آدمی کو حکمرانی دیتے ہو تو لال قلعے کا تو یہ حال ہونا ہی تھا ۔لیکن میں علی وردی خان سے مایوس نہیں ہوں۔
معظم علی بولا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاہی خاندانوں میں دو۔گرو بنے ہوئے تھے ایک چلاکی سے ایک کو حکمرانی پر بیٹھا تھا اور دوسرانہایت چلاکی سے اس کو اتار کر اپنا حکمران لے آتا جو پہلے سے بھی زیادہ نالائق اور حکمرانی کے معاملے میں ناہل ہوتا تھا ۔سب اپنے اپنے مفادات خوب اس سے نکلوا لیتے تھے رنگ و سرور کی محفلیں ناچگانا عام ہوگیا تھا جب قوم کے لیڈروں کا یہ حال ہو گا تو پھر آگے بھی اسی طرح کا نتیجہ نکلتا ہے ۔لیکن لیکن وہاں کے صوبے داروں اور امرا کیا کیا ہے اپنی شان شوکت بڑھانے کے علاوہ
ان کا کام ہوتا ہے طرز حکمرانی کو قوم کی امنگوں کے مطابق ڈھالنا لیکن سب اپنے اپنے مفادات میں لگے رہے ۔وہ سلطنت جو مسلمانوں نے لاکھوں قربانیوں کے بعد قائم کی تھی ان امراء کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہمارے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے ۔آپ علی وردی خان کی بات کرتے ہو تو اس کے مشیروں اور امرا کا کیا حال ہے کیا انہوں نے انگریزوں کو قدم جمانے میں مدد نہیں کی علی وردی خان صرف اسلئے خاموش ہے کے اس کو اپنی حکمرانی جاتی ہوئی نظر آتی ہے ۔وہ مستقبل کے حالات سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں
۔۔
۔ چوہدری ابرار بولا
اگر تمہیں اتنا سب کچھ پتہ ہے تو تم جاکر علی وردی خان کو بتا دو اگر نہیں تو میں جاکر بتا دیتا ہوں وہ میری بات ضرور سن لے گا ۔یہ اس بات کا ثبوت تھا کے چوہدری ابرار اب ان باتوں سے تنگ آ چکا تھا
معظم علی نہایت اطمنان سے بولا مجھے یا آپکو بتانے کی ضرورت نہیں انہیں سب کچھ پتہ ہے ۔میر جعفر جیسے لوگ کسی بھی ملک کے لیے خیر خا ہ نہیں ہوسکتے ۔
۔میر جعفر کا نام سن کر چوہدری ابرار تھوڑا حیران ہوا چوہدری ابرار بولا برخودار اگر اس طرح تم سرعام حکومت کے رشتے داروں کی عزت کو اچھالو گے تو مجھے ڈر ہے کہ تم کسی بڑی مصیبت میں آ جاؤ گے ۔ویسے میر جعفر کے متعلق میرے بھی خیالات کچھ اچھے نہیں ہیں
معظم علی بولا جو حکومت مجھے اپنے اوپر تنقید کرنے کا حق نہیں دیتی تو معاف کیجئے گا میں بھی اس کے لیے اپنی تلوار نہیں اٹھا سکتا ۔وہ کوئی بھی ہو جو مسلمانوں کو ایک کرتا ہے میں اسے حسب نسب نہیں پوچھوں گا ۔اور رہی بات مرہٹوں کے حملے کی تم آپ کو پہلے ہی بتا دیتا ہوں ۔یہ جنگ نہیں ہوگی علی وردی خان پھر سے کوئی نہ کوئی مصالحت کر کے صلح کرلے گا ۔البتہ مرہٹوں کا مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں مرشدآباد پر حملہ نہ کر دے ۔
چوہدری ابرار بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر تم فوج میں نہیں جاناں جاتے تو تمہاری مرضی ہے لیکن
خدا کے لئے اب یہ حملے والا ذکر تو نہ کرو۔آپ ہی بتائیں ایسی حالت میں جب کے سارے نوجوان شہر چھوڑ کر فوج میں جا چکے ہیں ۔علی وردی خان سے دو محاذوں پر لڑنا مشکل ہوگا انگریزوں سے وہ صلح کریں گے نہیں لیکن مرہٹوں سے وہ ہر صورت صلہ کرے گا ۔اور مجھے ڈر ہے کہ مرہٹوں کا کوئی سر پھرا گروہ اس طرف نا نکل آئے کیونکہ وہ خالی ہاتھ جانے والے نہیں ہیں ۔
اب چوہدری ابرار اور پریشان ہوگیا ۔تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔معظم علی بولا ہمیں تیاری کرنی چاہیے تاکہ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں توہم مرہٹوں کا مقابلہ کر سکے ۔
چوہدری برار بولا ابھی میں ایک دو دن دیکھوں گا ۔اگر ضرورت پڑی تو پھر میں تمھیں اس بارے میں اطلاع دے دوں گا ۔ٹھیک ہے چوہدری صاحب میں اب نماز پڑھنے جا رہاہوں اللہ حافظ ۔ ۔ ۔ ۔
چند دنوں بعد ہی یہ افواہ گردش کرنے لگی کے مرہٹوں کے ساتھ صلح ہو جائے گی ۔ ادھر گاؤں کے لوگوں کو جو بچے کچھے بوڑھے تھے ۔معظم علی ٹریننگ کروا رہا تھا یہ کوئی دو سو سے ڈھائی سو لوگوں کا دستہ تھا ۔اس سے زیادہ لوگ دیکھنے والے اور مذاق اڑانے والے تھے ۔معظم علی ان کو پوری دلجمعی سے ریفل پکڑنا اور چلانا سیکھا رہا تھا ساتھ ساتھ نیزابازی تیرکمان تلوار چلانا بھی سکھا رہا تھا ۔شروع شروع میں لوگوں نے دل لگا کر ہر کام سیکھا تھا لیکن اب ان کی دلچسپی بھی مذاق اڑانے والوں میں شامل ہوتی جا رہی تھی ۔ایک دن چوہدری صاحب کے گھر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے ۔پروین کی شادی کی بعد کرنے کے لئے اور شعیب بھی ساتھ تھا جس کے بارے میں پروین کی شادی کی بات چل رہی تھی
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1 ۔
حسن علی شعیب کا والد بولا چوہدری صاحب کیا یہاں جنگ ہونے والی ہے ۔چوہدری ابرار کچھ نہ کچھ کرکے بات ٹال گیا۔
روز کی طرح معظم علی ٹریننگ دینے میں مصروف تھا اور پروین بھی روز کی طرح چھت پر بیٹھ کر دیکھ رہی تھی لیکن آج شعیب بھی اس کے ساتھ تھا ۔شعیب بولا تم یہ کیا دیکھ رہی ہو ۔پروین بےاختیار بولی میں مجاہد کو دیکھ رہی ہوں جو اپنی قوم کے سکون کے لیے تیاری کر رہا ہے ۔تو کیا تمہیں بھی لگتا ہے مرہٹے حملہ کریں گے شعیب مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ ضرور حملہ کریں گے پروین بولی ۔
اب تو میں نے سناہے ہماری فوج واپس آرہی ہے اور جلدہی وہ مرشد آباد پہنچ گئی ۔پروین بولی آپ مرہٹوں کو نہیں جانتے وہ کچھ نہ کچھ ضرور نقصان کرکے جائیں گے ۔
شعیب بولا معظم علی ایک بہادر جوان ہے ۔کاش مجھے بھی لڑنا آتا تو میں بھی جنگ میں حصہ ضرور لیتا ۔پروین کا دل کہیں اور پہنچ گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے جلدی سے ڈوپٹے سے اپنا منہ چھپا لیا ۔لیکن شعیب نے محسوس کرلیا تھا کے پروین کو اس بات سے دکھ پہنچا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معظم علی نے شہر سے باہر چوکیاں کھڑی کی ہوئی تھی ہرچوکی پر کم از کم دو آدمی تھے ۔جو مرہٹوں کے حملے کرنے کی صورت میں فوری طور پر گاؤں والوں کو آکر بتاتی ۔
اور پھر ایک دن ایسا آ ہی گیا جب ایک گھڑسوار گھوڑا دوڑاتا ہوا گاؤں میں آیا ۔اور ساتھ میں بلند آواز میں پکار تا جاتا وہ آ رہے ہیں مرہٹے آرہے ہیں لوگو تیار ہو جاؤ وہ آ رہے ہیں مرہٹے حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں ۔گھوڑے کا رخ سیدھا چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف تھا ۔گھڑسوار سے معظم علی نے پوچھا وہ کتنی دور ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے ۔
گھڑسوار بولا وہ زیادہ دور نہیں ہیں ایک سے دو گھنٹے میں وہ گاؤں پر حملہ کر دیں گے
جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو میرے خیال سے انکی تعداد 15 سے 20 ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی ۔معظم علی بولا گاؤں کی مسجد میں جاکر اعلان کردو کے سارے گاؤں والے چوہدری صاحب کی حویلی میں پہنچ جائیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
پچھلی پوسٹ کے لیے یہاں کلک کریں
6معظم علی بنگال کا ایک ہیرو
چوہدری ابرار نے کہا چلے تھانیدار صاحب کھانا کھاتے ہیں ۔کھانے کے دوران ۔تھانیدار بولا دیکھو معظم اگر تمہیں فوج میں جانا اچھا نہیں لگتا تو میں ایس پی صاحب سے پولیس میں تمہارے لیے بات کر سکتا ہوں اور وہ بھی خوشی سے مان جائے گے ۔
معظم بولا جی شکریہ تھانیدار صاحب لیکن میں نے ابھی مستقبل کے بارے میں سوچا نہیں ہے ۔
تھانیدار بولا جیسے تمہاری مرضی لیکن پولیس آپ جیسے نوجوان کے لیے اچھی جاب ہے
معظم علی نے ایک بار پھر شکریہ ادا کیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا کھانے کے باد تھانیدار تو چلا گیا لیکن معظم کو چوہدری صاحب نے روک لیا چوہدری صاحب کو علی وردی خان سے کافی الفت تھی اور معظم علی کی بات سن کر وہ پریشان ہو گئے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان کو شاید پتا نہیں تھا کہ ان کی پریشانی اب مزید بڑھنے والی ہے ۔
چوہدری ابرار بولا ۔دیکھو معظم میں نہیں جانتا کے تمہارے ذھن میں کیا چل رہا ہے لیکن ایک ایسے وقت میں کے جب ہماری قوم کو چاروں طرف سے خطرات نے گھیرا ہو اور تم جیسے نوجوان اس طرح کی باتیں کریں گے تو کیا ہوگا اس ملک کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معظم علی بولا ۔مجھے جو صحیح لگا میں نے وہ بولا اگر میری بات سے آپ کو گنج رنج پہنچتا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں ۔لیکن یہ بات سچ ہے کہ علی وردی تو کیاسپاہیوں کو بھی پتا نہیں مسلمانوں کا دوست کون ہے اور دشمن کون ۔ایک وقت میں تو وہ مرہٹوں اور جاٹوں سے جنگ کرتے ہیں اور اگلے دن صلح کر لیتے ہیں ۔ چوہدری ابرار بولا لیکن انگریزوں کے بارے میں علی وردی خان کے خیالات بڑے واضع ہیں وہ انگریزوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور پوری قوم سمجھتی ہے اور تم بھی سمجھتے ہو میں بھی سمجھتا ہوں ۔
معظم علی بولا لیکن یہ سچ نہیں ہے دہلی میں مسلمانوں کے پرچم سرنگوں ہو چکے ہیں اور جس سلطنت کی مرکزی قوت کمزور ہو وہاں کے دیگر حکمران کبھی بھی زیادہ دیر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتے ۔چوہدری ابرار بولا تو کیا یہ سچ نہیں ہےآج تم جو آزادی کا سانس لے رہے ہو وہ علی وردی خان کی حکمرانی کی وجہ سے ہے ۔
معظم علی بولا وہ ایک بہتر سیاستدان اور مصحلت پسند آدمی ہیں اگر اس نے اپنی چلاکی یا ہوشیاری سے ۔حکمرانی حاصل کر لی ہے تو ہم پر کوئی احسان نہیں کیا ۔اس سے تو اچھا تھا جو سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیتا اور اپنی مرضی قوت کو ناقابل تسخیر بناتا مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑا کرتا ہر کوئی اس کے سامنے جواب دہ ہوتا ایک بڑی فوج کے سامنے کوئی انگریز ہندو جاٹ یا مرہٹے مقابلہ نہ کر سکتے لیکن اس کے مقابلے میں ۔اب ہم چھوٹی چھوٹی ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ ہم زیادہ دیر ایسٹ انڈیا کمپنی کو یا جاٹوں کو مرہٹوں کو روک پائیں گے ۔
جو کچھ دلی میں ہوا وہ سب کچھ انکے اپنی غلطیوں کا ازالہ ہے چوہدری ابرار بولا جب آپ اورنگزیب عالمگیر جیسے آدمی کو حکمرانی دیتے ہو تو لال قلعے کا تو یہ حال ہونا ہی تھا ۔لیکن میں علی وردی خان سے مایوس نہیں ہوں۔
معظم علی بولا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاہی خاندانوں میں دو۔گرو بنے ہوئے تھے ایک چلاکی سے ایک کو حکمرانی پر بیٹھا تھا اور دوسرانہایت چلاکی سے اس کو اتار کر اپنا حکمران لے آتا جو پہلے سے بھی زیادہ نالائق اور حکمرانی کے معاملے میں ناہل ہوتا تھا ۔سب اپنے اپنے مفادات خوب اس سے نکلوا لیتے تھے رنگ و سرور کی محفلیں ناچگانا عام ہوگیا تھا جب قوم کے لیڈروں کا یہ حال ہو گا تو پھر آگے بھی اسی طرح کا نتیجہ نکلتا ہے ۔لیکن لیکن وہاں کے صوبے داروں اور امرا کیا کیا ہے اپنی شان شوکت بڑھانے کے علاوہ
ان کا کام ہوتا ہے طرز حکمرانی کو قوم کی امنگوں کے مطابق ڈھالنا لیکن سب اپنے اپنے مفادات میں لگے رہے ۔وہ سلطنت جو مسلمانوں نے لاکھوں قربانیوں کے بعد قائم کی تھی ان امراء کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہمارے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے ۔آپ علی وردی خان کی بات کرتے ہو تو اس کے مشیروں اور امرا کا کیا حال ہے کیا انہوں نے انگریزوں کو قدم جمانے میں مدد نہیں کی علی وردی خان صرف اسلئے خاموش ہے کے اس کو اپنی حکمرانی جاتی ہوئی نظر آتی ہے ۔وہ مستقبل کے حالات سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں
۔۔
۔ چوہدری ابرار بولا
اگر تمہیں اتنا سب کچھ پتہ ہے تو تم جاکر علی وردی خان کو بتا دو اگر نہیں تو میں جاکر بتا دیتا ہوں وہ میری بات ضرور سن لے گا ۔یہ اس بات کا ثبوت تھا کے چوہدری ابرار اب ان باتوں سے تنگ آ چکا تھا
معظم علی نہایت اطمنان سے بولا مجھے یا آپکو بتانے کی ضرورت نہیں انہیں سب کچھ پتہ ہے ۔میر جعفر جیسے لوگ کسی بھی ملک کے لیے خیر خا ہ نہیں ہوسکتے ۔
۔میر جعفر کا نام سن کر چوہدری ابرار تھوڑا حیران ہوا چوہدری ابرار بولا برخودار اگر اس طرح تم سرعام حکومت کے رشتے داروں کی عزت کو اچھالو گے تو مجھے ڈر ہے کہ تم کسی بڑی مصیبت میں آ جاؤ گے ۔ویسے میر جعفر کے متعلق میرے بھی خیالات کچھ اچھے نہیں ہیں
معظم علی بولا جو حکومت مجھے اپنے اوپر تنقید کرنے کا حق نہیں دیتی تو معاف کیجئے گا میں بھی اس کے لیے اپنی تلوار نہیں اٹھا سکتا ۔وہ کوئی بھی ہو جو مسلمانوں کو ایک کرتا ہے میں اسے حسب نسب نہیں پوچھوں گا ۔اور رہی بات مرہٹوں کے حملے کی تم آپ کو پہلے ہی بتا دیتا ہوں ۔یہ جنگ نہیں ہوگی علی وردی خان پھر سے کوئی نہ کوئی مصالحت کر کے صلح کرلے گا ۔البتہ مرہٹوں کا مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں مرشدآباد پر حملہ نہ کر دے ۔
چوہدری ابرار بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر تم فوج میں نہیں جاناں جاتے تو تمہاری مرضی ہے لیکن
خدا کے لئے اب یہ حملے والا ذکر تو نہ کرو۔آپ ہی بتائیں ایسی حالت میں جب کے سارے نوجوان شہر چھوڑ کر فوج میں جا چکے ہیں ۔علی وردی خان سے دو محاذوں پر لڑنا مشکل ہوگا انگریزوں سے وہ صلح کریں گے نہیں لیکن مرہٹوں سے وہ ہر صورت صلہ کرے گا ۔اور مجھے ڈر ہے کہ مرہٹوں کا کوئی سر پھرا گروہ اس طرف نا نکل آئے کیونکہ وہ خالی ہاتھ جانے والے نہیں ہیں ۔
اب چوہدری ابرار اور پریشان ہوگیا ۔تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔معظم علی بولا ہمیں تیاری کرنی چاہیے تاکہ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں توہم مرہٹوں کا مقابلہ کر سکے ۔
چند دنوں بعد ہی یہ افواہ گردش کرنے لگی کے مرہٹوں کے ساتھ صلح ہو جائے گی ۔ ادھر گاؤں کے لوگوں کو جو بچے کچھے بوڑھے تھے ۔معظم علی ٹریننگ کروا رہا تھا یہ کوئی دو سو سے ڈھائی سو لوگوں کا دستہ تھا ۔اس سے زیادہ لوگ دیکھنے والے اور مذاق اڑانے والے تھے ۔معظم علی ان کو پوری دلجمعی سے ریفل پکڑنا اور چلانا سیکھا رہا تھا ساتھ ساتھ نیزابازی تیرکمان تلوار چلانا بھی سکھا رہا تھا ۔شروع شروع میں لوگوں نے دل لگا کر ہر کام سیکھا تھا لیکن اب ان کی دلچسپی بھی مذاق اڑانے والوں میں شامل ہوتی جا رہی تھی ۔ایک دن چوہدری صاحب کے گھر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے ۔پروین کی شادی کی بعد کرنے کے لئے اور شعیب بھی ساتھ تھا جس کے بارے میں پروین کی شادی کی بات چل رہی تھی
https://jeeveerji.blogspot.com/2018/11/jin-kaley-khan-aur-mera-gaun-bhoot-aur.html?m=1 ۔
حسن علی شعیب کا والد بولا چوہدری صاحب کیا یہاں جنگ ہونے والی ہے ۔چوہدری ابرار کچھ نہ کچھ کرکے بات ٹال گیا۔
روز کی طرح معظم علی ٹریننگ دینے میں مصروف تھا اور پروین بھی روز کی طرح چھت پر بیٹھ کر دیکھ رہی تھی لیکن آج شعیب بھی اس کے ساتھ تھا ۔شعیب بولا تم یہ کیا دیکھ رہی ہو ۔پروین بےاختیار بولی میں مجاہد کو دیکھ رہی ہوں جو اپنی قوم کے سکون کے لیے تیاری کر رہا ہے ۔تو کیا تمہیں بھی لگتا ہے مرہٹے حملہ کریں گے شعیب مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ ضرور حملہ کریں گے پروین بولی ۔
اب تو میں نے سناہے ہماری فوج واپس آرہی ہے اور جلدہی وہ مرشد آباد پہنچ گئی ۔پروین بولی آپ مرہٹوں کو نہیں جانتے وہ کچھ نہ کچھ ضرور نقصان کرکے جائیں گے ۔
شعیب بولا معظم علی ایک بہادر جوان ہے ۔کاش مجھے بھی لڑنا آتا تو میں بھی جنگ میں حصہ ضرور لیتا ۔پروین کا دل کہیں اور پہنچ گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے جلدی سے ڈوپٹے سے اپنا منہ چھپا لیا ۔لیکن شعیب نے محسوس کرلیا تھا کے پروین کو اس بات سے دکھ پہنچا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معظم علی نے شہر سے باہر چوکیاں کھڑی کی ہوئی تھی ہرچوکی پر کم از کم دو آدمی تھے ۔جو مرہٹوں کے حملے کرنے کی صورت میں فوری طور پر گاؤں والوں کو آکر بتاتی ۔
اور پھر ایک دن ایسا آ ہی گیا جب ایک گھڑسوار گھوڑا دوڑاتا ہوا گاؤں میں آیا ۔اور ساتھ میں بلند آواز میں پکار تا جاتا وہ آ رہے ہیں مرہٹے آرہے ہیں لوگو تیار ہو جاؤ وہ آ رہے ہیں مرہٹے حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں ۔گھوڑے کا رخ سیدھا چوہدری صاحب کی حویلی کی طرف تھا ۔گھڑسوار سے معظم علی نے پوچھا وہ کتنی دور ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے ۔
گھڑسوار بولا وہ زیادہ دور نہیں ہیں ایک سے دو گھنٹے میں وہ گاؤں پر حملہ کر دیں گے
جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو میرے خیال سے انکی تعداد 15 سے 20 ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی ۔معظم علی بولا گاؤں کی مسجد میں جاکر اعلان کردو کے سارے گاؤں والے چوہدری صاحب کی حویلی میں پہنچ جائیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
پچھلی پوسٹ کے لیے یہاں کلک کریں
6معظم علی بنگال کا ایک ہیرو
0 Comments